17

تازہ گٹھ بندھن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

بہت بڑی خوش خبری ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یوآئی کے درمیان سیاسی اتحاد ہونے والا ہے، جسے سیاسی زبان میں ’’طے پا گیا‘‘ کہا جاتا ہے اور ہندوستان میں اسے گٹھ بندھن کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم عوامی زبان میں اسے’’ قبول ہے، قبول ہے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عوامی زبان میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔ مگر سمجھانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک ادا میں رضا مند کرگئی

خیر ہمیں کیا، ہم تو گدائے گوشہ نشین ہیں اور امورمصلحت و سیاست اہل علم و سیاست کا کام ہے، البتہ ہمارے لیے خوشی کا مقام یہ ہے کہ ’’یہودی لابی ‘‘ والے توبہ تائب ہوگئے ہیں اورسب سے بڑی ’’سند مسلمانی‘‘ ان کو اس مقام سے مل گئی جس مقام سے ان پر ’’یہودی لابی‘‘ ہونے کا فتویٰ صادر ہوا تھا ۔ یہ ٹھیک ویسا ہی لطیفہ ہوگیا جیسا ایک گاؤں کے پیش امام صاحب نے فری راشن نہ دینے پر ناراض ہو کر ہندو دکاندار کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لیے اس پر ’’منکر‘‘ ہونے کا فتویٰ جڑ دیا تھا لیکن جب ہندو دکاندار اور مولانا کے درمیان ’’ طے پا گیا‘‘ تو اسی روز مولانا نے اعلان کیا کہ فلاں ہندو دکاندار جو ’’منکر‘‘ ہوگیا تھا، مولانا کی جدوجہد اور علم وفضل کی تاب نہ لاتے ہوئے دوبارہ ’’ ہندو ‘‘بن گیا ہے،لہٰذا اس سے سودا سلف خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ایک خوشبوئے شناسا جو صبا لائی ہے

وہ بھی آجائیں گے، آنے کی خبر آئی ہے

اورہم جیسے عامی لوگوں کے لیے یہی بہت ہے کہ یہودی لابی والے توبہ تائب ہوگئے ہیں کیوں کہ ہم بہت ہی ’’کم‘‘ میں خوش ہونے والے لوگ ہیں ۔ مائیکل جیکسن کے مسلمان ہونے کی افواہ پر بھی بھنگڑہ ڈال دیتے ہیں اور ثانیہ مرزا کو بہو کا خطاب دے کر بھارت کی طرف منہ کرکے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے لیتے ہیں ، سیکڑوں کنیزوں کا حرم رکھنے والے گردن تراش سلطان عبدالحمید ثانی کو خلیفۃ المسلمین بنانے کے بھی درپے ہو جاتے ہیں۔

یہی بہت ہے کہ سالم ہے دل کا پیراہن

یہ چاک چاک گریباں بے رفوہی سہی

اب بھلا ’’یہودی لابی‘‘ اتنے سارے ارکان کے توبہ تائب ہونے پرخوش کیوں نہیں ہوں گے اوریہ خوشی ہمیں حضرت مولانا مدظلہ کے دم قدم سے حاصل ہوئی ہے ۔

کوئی جھنکار ہے، نغمہ ہے، صدا ہے،کیا ہے ؟

تو کرن ہے کہ کلی ہے کہ صبا ہے،کیا ہے ؟

ہوش میں لائے، میرے ہوش اڑانے والے

یہ ترا ناز ہے، شوخی ہے، ادا ہے، کیا ہے ؟

پہلے تو ہم اسے ایک افواہ سمجھے تھے لیکن پھر باوثوق اوربے وثوق دونوں ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ فریق دوم نے بھی اس گٹھ جوڑ یا گٹھ بندھن کی تصدیق کردی ہے اورحضرت مدظلہ العالی نے مجلس شوریٰ طلب کرکے زورشور سے مشاورت کرکے گٹھ بندھن کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی اور’’طے پاگیا‘‘ کہ مہر ہے سر محضر لگی ہوئی۔ عملی تصدیق کا ثبوت یہ ہے کہ آجکل فریق اول کی توپوں سے’’ یہودی لابی‘‘ نام کے گولے داغنے کی گھن گرج بند ہوگئی ہے اور نہ ہی فریق دوم کی جانب سے ’’ڈیزل ڈیزل‘‘ کی ریپڈ فائرنگ ہوتی ہے، اگر وہ اپنی گاڑیوں میں پٹرول یا ڈیزل ڈلواتے ہیں تو اب اسے فیول کہتے ہیں ۔گویا

نے مژدہ وصال نہ نظارہ جمال

مدت ہوئی کہ آشتی چشم وگوش ہے

دونوں طرف سے جو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، ان کا کام بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں جاکر وہ ثبوت اور نشانات مٹا دیں جو ’’دشمنوں ‘‘ نے پھیلائے ہوئے ہیں کیوں کہ دونوں کے درمیان اب’’طے پاگیا‘‘ہے۔

مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب

اے ذوق اب اجازت تمکین وہوش ہے

موج خرام ساقی و ذوق صدائے جنگ

وہ جنت نگاہ، یہ فردوس گوش ہے

کچھ لوگ پیش گوئی کررہے ہیں کہ حضرت مولانا کے اس ’’کارنامے‘‘ کی وجہ سے نہ صرف ملکی سیاست میں خوشگوار تبدیلیاں آجائیں گی بلکہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کے اس سلوک میں بھی تبدیلی آجائے، جو وہ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے ۔ داد دینا پڑے گی اس بے مثال سیاست کاری کی۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ آگ اور پانی ایک ہوجائیں گے،کرشمہ و کرامت یہ ہے کہ آگ بھی جلتی رہے گی اور پانی بھی موجیں مارتا رہے گا۔

ایں کا راز تو آئد و مردان چنیں

یعنی یہ جو کام ہوا ہے ، مردان صفا ایسا ہی کرتے ہیں۔ بجزقیس اورکوئی نہ آیا بروئے کار۔ دراصل فریق اول جب سے سیاست میں انٹری دے چکے ہیں، تب سے چمتکار کرتے آ رہے ہیں ۔ چمتکار کے معنی جاننے کے لیے عامر خان کی فلم ’’تھری ایڈیٹ‘‘ دیکھیے ۔

اگر آپ کو یاد ہو تو کافی عرصہ پہلے ہم نے ایک کالم میں چشم گل چشم عرف کورونا وائرس کے چمتکار کاذکر کیا تھا ۔ اس زمانے میں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہورہے تھے ۔ چیئرمین شپ کے لیے ایک ماڈرن خاتون بھی امیدوار تھی۔ چشم گل نے ایک حضرت صاحب کا پیروکار ہونے کے ناطے اس ماڈرن خاتون کی شدید مخالفت کی تھی اوراعلان فرمایا کہ عورت کی سربراہی قطعی خلاف اسلام ہے ، پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا، وہ اس ماڈرن خاتون کے حق میں ہوگئے اورجب وہ چیئرمین بن گئی تو چشم گل اور اس کا روحانی استاد بھی ایک چیئر کے مین ہو گئے ۔ اس زمانے میں احمد فراز کایہ شعر بڑا پاپولر ہوگیا تھا۔

یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں

خیر یہ بات تو ویسے ہی دم ہلاہلا کر بیچ میں آگئی، ہم ذکر کر رہے تھے اپنے منحرف یہودی لابی اور حضرت مولانا کے تازہ تازہ گٹھ بندھن کا ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں