21

اسرائیل سے امریکی وابستگی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

(فوٹو: انٹرنیٹ)

(فوٹو: انٹرنیٹ)

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جیسے ہی امریکا کے دورے پر پہنچے تو احتجاجی مظاہرین کیپٹل ہل کی عمارت میں داخل ہوگئے، مظاہرین نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے اورغزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدرجوبائیڈن اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کریں گے، جب کہ سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کل ہوگی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے چین کی ثالثی میں فلسطینی دھڑوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے دورہ امریکا کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، ایک ایسے وقت جب امریکا میں صدارتی انتخابات کا میدان سج چکا ہے، امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات محض رسمی کارروائی ہوگی،کیونکہ وہ تو پہلے ہی صدارتی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں، اصل مقصد تو ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا ہے جوکہ مضبوط ترین امریکی صدارتی امیدوار ہیں جن کی مستقبل میں کامیابی سے اسرائیل کو امریکا کی بڑی سپورٹ حاصل ہوجائے گی۔ دراصل امریکا کے لیے اسرائیل کئی دہائیوں سے ایک مشکل اتحادی رہا ہے۔

غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی عسکری مہم اب ان دونوں ممالک کے مابین طویل عرصے سے موجود مسائل کو بے نقاب کرتی جا رہی ہے۔امریکا اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی اہمیت طویل عرصے سے واشنگٹن میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن سیاستدانوں کے لیے ایک اہم پالیسی نکتہ رہا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران امریکا کی ان دونوں سیاسی جماعتوں میں طاقت کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، تاہم ایک چیز اٹل تھی اور اب بھی ہے،’’ اسرائیل کے ساتھ امریکی وابستگی۔‘‘ دونوں سیاسی پارٹیوں کے رہنما اس یقین کامل پر جمے رہے ہیں کہ اسرائیل کا امریکا سے زیادہ قریبی ساتھی یا اتحادی کوئی نہیں اور اسرائیل کی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ کونسل آن فارن ریلیشنزکے مطابق 1948کے بعد سے اسرائیل کو امریکا سے تقریباً 300 بلین ڈالر (280 بلین یورو) کی امداد ملی ہے، اس میں سے زیادہ تر فوجی مقاصد کے لیے تھی جب کہ اسرائیل کی آبادی صرف 9.5 ملین ہے۔

سات اکتوبر2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں امریکا نے اسرائیل کو ہتھیار بھیجے، اپنے جنگی بحری بیڑوں کو خطے میں بھیج دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹوکر دیا۔ یہاں تک کہ امریکی صدرجوبائیڈن نے اسرائیلی دفاع کے مفاد میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوکے ساتھ اختلافات کو ایک طرف رکھا اورکہا کہ ’’ وہ غزہ کی جنگ کے اسرائیلی نقطہ نظرکو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کا جھکاؤ مزید دائیں طرف بڑھ رہا ہے۔

اس ریاست میں مذہبی انتہا پسندوں نے پہلے سے زیادہ سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے اور یہ بڑی حد تک نیتن یاہوکی زیرقیادت مختلف حکومتی ادوار میں ہوا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضے اور غزہ پر مکمل کنٹرول کو معمول کی بات بنانے کی اسرائیلی کوششوں نے اسرائیل کو خاص طور پر امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت سے متصادم کردیا ہے۔

غزہ میں چالیس ہزار شہری ہلاکتوں پر امریکی انتظامیہ کی طرف سے تنقید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی موقف اب بہت واضح ہے، وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے وسیع آزادی، مواقعے اور جمہوریت کا خواہش مند ہے، تاہم اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر قبضے میں توسیع بائیڈن انتظامیہ کے وژن کوکمزورکر رہی ہے۔ آج بھی فلسطینیوں پر جو بارود برس رہا ہے، وہ امریکا کا ہے، جن جہازوں سے برسایا جا رہا ہے، ان کی اکثریت بھی امریکا کی ہے۔ توپیں، ڈرون غرض فلسطینیوں کو قتل کرتے اکثر اسلحے کا اصل ایڈریس میڈ ان امریکا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے بم بھی امریکا ہی اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ امریکا،القدس شریف کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے میں ایک منٹ لگاتا ہے، مگر جب ان سے کہا جائے کہ فلسطین کی ایک ریاست کا آپ نے ہی وعدہ کر رکھا ہے، اس کو اپنے طے شدہ ضابطے کے مطابق ہی تسلیم کر لیں، تو فوراً کہا جاتا ہے کہ اس کا مناسب وقت نہیں آیا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس کا مناسب وقت تب آنا ہے، جب پورے فلسطین پرآبادکاری مکمل ہوجائے اور فلسطینیوں کا مکمل صفایا کردیا جائے، نہ فلسطینی بچیں گے اور نہ ہی ریاست کی ضرورت رہے گی۔اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، دنیا میں اور خطے میں نئی طاقتیں امریکی نظام کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔

امریکا اور اسرائیل کسی صورت میں مسلم ممالک اور مسلم تنظیموں کے درمیان وحدت نہیں چاہتے، اس لیے وہ اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ بحرین اور امارات کو ایران سے ڈرا ڈرا کر اس جگہ لے آئے کہ انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ان کی سافٹ وار نے خلیج پیدا کردی۔ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ممالک میں قائم سفارت خانے تک بند ہوگئے۔ یہ امریکا اور اسرائیل کے لیے آئیڈیل حالات تھے۔ ان حالات میں بیجنگ سے خبرآتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران چین میں مذاکرات کر رہے ہیں اور پھر دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے اعلان نے امریکی اور یورپی کیمپ کوکمزورکردیا۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ یہ چاہتے تھے کہ سعودی عرب جلد ازجلد اسرائیل کو تسلیم کرلے، بائیڈن انتظامیہ کی بھی یہی خواہش تھی، مگر چین کی سفارت کاری نے ان کی خواہشات پر پانی پھیردیا۔ اب سعودی عرب اور ایران کے سفارخانے کھل چکے ہیں اور تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب چین سے دوبارہ خبرآئی ہے، چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نے چین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’’ تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔‘‘ اس پورے عمل کو سفارتی زبان میں بیان کیا جائے، تو یہ ایک بہت بڑا شفٹ آف پاور ہے۔

مذاکرات امریکی کیمپ کے مراکز میں امریکی نگرانی میں ہوتے تھے۔ اب امریکا کو مائنس کر کے اور مشرق کے ایک بڑے شہر میں ہوئے ہیں۔ چین کا سفارت کاری کا اپنا انداز ہے، یہ بہت خاموشی سے کام کرتے ہیں اور جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کے چودہ بڑے گروہوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اہل فلسطین کا یہ اتحاد امریکا اور اسرائیل کے غزہ پر براہ راست قبضے کو ناممکن بنا دے گا۔ اب دنیا کے سامنے فلسطینی ایک قوم اور ایک ملت کے طور پر پیش ہوں گے۔ یہ اسرائیلی حکمت عملی رہی کہ وہ مار سب فلسطینیوں کو رہا ہوتا ہے، مگرکہہ یہ رہا ہوتا ہے کہ حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

اس وقت امریکا خوفزدہ ہے کہ وہ سعودی عرب چین تعلقات کو وسعت سے نہیں روک سکتا۔ سعودی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بدلتی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں اور بہت سے معاملات میں شاید چین کو ایک مستحکم عالمی مستقبل کے لیے زیادہ قابل اعتماد پارٹنرکے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن امریکا کو امید ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے ذریعے سعودی عرب چین تعلقات کو کم کرسکتا ہے اورسعودی عرب امریکی سیکیورٹی انتظامات پر زیادہ انحصار کرے گا، جب کہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ سعودی عرب کسی امریکی کیمپ میں منتقل ہو یا امریکا کو واحد قابل اعتماد، پائیدار اور مستحکم طویل مدتی شراکت دارکے طور پر قبول کرے گا، اگرچہ امریکا سیکیورٹی تعلقات کی حد تک معاملات کو پیچیدہ بنا سکتا ہے، لیکن سعودی عرب چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔

سعودی عرب ہی کیوں امریکا کی اپنے یورپی اتحادیوں پر بھی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے، تین یورپی ریاستوں اسپین،آئرلینڈ اور ناروے کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ علامتی سہی مگر امریکا کے لیے انتباہ سے کم نہیں۔ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں خلیج کی عکاسی کرتا ہے۔

امریکا چین کے ساتھ اپنے مسابقت کی بنیاد پر عالمی سطح پر تقسیم کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ کو سب سے اہم مارکیٹ کے طور پر دیکھتا ہے اور عربوں کے تیل کے لیے خطے میں عدم استحکام چاہتا ہے جب کہ چین کے پاس مشرق وسطیٰ میں گہرے اتحاد یا جنگ بندی کی ایسی کوئی عصری تاریخ نہیں ہے۔ زیادہ تر ممالک امریکا اور چین میں سے ایک انتخاب نہیں کرنا چاہتے۔ چین کی فریقین کے انتخاب کے حوالے سے کوئی شرط بھی نہیں وہ مغربی ایشیاء اور عالمی سطح پر اپنے اہداف امریکا کے مد مقابل آ ئے بغیر پورے کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے۔ چین تمام فریقوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چین سعودی اور ایران کے درمیان ایک انتہائی اہم مفاہمت کی ثالثی کرنے میں کامیاب ہوچکا۔

چین کے خوف کی وجہ سے امریکا دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ یورپ پر اپنی گرفت رکھنے کے لیے روس یوکرین جنگ میںیوکرین کو باردو دے کر جنگ کو طول دے رہا ہے تو دوسری طرف مڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور اپنے عالمی ایجنڈے غزہ کو میدان جنگ بنا کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ دنیا کو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دینا چاہیے کہ وہ غزہ کو تباہ کرنے اورگزشتہ 10 ماہ کے دوران 40 ہزار کے قریب بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کرنے والے وحشیانہ تشدد کو ختم کرے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں