22

گوہر بائی کلکتے والی (دوسرا حصہ)

[ad_1]

جرمنی کی ایک ریکارڈنگ کمپنی نے اپنے ایک نمایندے ولیم گیسپرکو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ہندوستانی موسیقی کو تین منٹ یعنی 78 Rpm میں ریکارڈ کرے۔ وہ بڑے بڑے امرا و رؤسا سے ملا لیکن اسے کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ موسیقی ہمیشہ سے ہندوستان یعنی برصغیرکی پہچان رہی ہے۔ فریڈرک گیسپر بہت مایوس ہوگیا ویسے بھی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندوستانی موسیقی تین منٹ میں ریکارڈ نہیں ہو سکتی کیونکہ آلاپ، انترہ اور استھائی خاصا وقت لے لیتے ہیں۔

گیسپر پریشان ہو گیا اور وہ واپس جانے ہی والا تھا کہ ایک دن اسے ایک مہاراجہ کی طرف سے محفل موسیقی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ جب وہ محفل میں پہنچا تو لوگوں کا ذوق و شوق دیکھ کر اسے لگا کہ کوئی خاص شخصیت آنے والی ہے کیونکہ لوگ بے تابی سے اس شخصیت کا انتظار کررہے تھے، آخرکار انتظارکی گھڑیاں ختم ہوئیں، ایک شاندار بگھی آکر رکی اور اس میں سے ایک حسین وجمیل لڑکی اتری، جس نے گہرے رنگ کی ساڑھی باندھی ہوئی تھی جس کے بارڈر اور پلو پر اصلی سونے کے تاروں سے خوب بھرا ہوا کام ہوا تھا،اور وہ حسینہ سونے کے زیورات سے لدی ہوئی تھی،گیسپر حیران ہوکر اسے دیکھ رہا تھا، جب وہ اس کے قریب سے گزری توگیسپر نے دیکھا کہ گلابی بے داغ رنگت اور نین نقش سے وہ یورپین لگ رہی تھی، اس حسینہ نے گیسپر کی بے چینی کو جیسے محسوس کر لیا تھا، وہ آہستہ سے بولی ’’ ہیلو جنٹلمین!‘‘ اور اپنے سازندوں کے ساتھ اسٹیج کی طرف چلی گئی۔ کسی نے گیسپر سے کہا کہ ’’ یہ ہے مشہور اور نامور مغنیہ گوہر جان۔‘‘

گوہر جان نے گانا شروع کیا تو گیسپرکو لگا کہ گوہر مقصود اس کے ہاتھ آگیا ہے،گوہر جان نے ٹھمری اور غزل اس خوبی سے گائی کہ تمام اہل ذوق دم بخود رہ گئے، یہ تمام لوگ موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، محفل کے اختتام پر مہاراجہ نے گیسپر کا تعارف گوہر جان سے کروایا، تو اس نے ہندوستانی موسیقی کی ریکارڈنگ کو تین منٹ میں ریکارڈ کرنے کی بات کی۔ گوہر جان نے وہ آفر قبول کر لی، لیکن اپنا معاوضہ فی گانا تین ہزار روپے بتایا جسے گیسپر نے فوری طور پر منظورکر لیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب خالص کھرا سونا 20 روپے تولہ ملتا تھا۔

ریکارڈنگ کے لیے گیسپر نے کلکتہ کے ایک ہوٹل کے دوکمرے کرائے پر لیے اور انھیں اسٹوڈیو میں بدل دیا۔ وقت مقررہ پرگوہر جان اپنے سازندوں کے ساتھ بگھی میں بڑی شان سے آئی اور گانے تین منٹ میں ریکارڈ کروائے اور آخر میں اس نے کہا “My name is Gohar Jan.” یہ اس لیے ضروری تھا کہ ریکارڈ جرمنی بھیجا جانا تھا، جہاں اس کے گراموفون ریکارڈ 78. RPM تیار ہونے تھے۔ گوہر جان نے نہایت آسانی سے ٹھمری، خیال، دادرا اور غزل تین منٹ میں بنوا دیے۔

اس نے آلاپ، انترہ اور استھائی کو مختصرکیا اورگیسپر کی خواہش کے مطابق گانے ریکارڈ کروائے۔ جب یہ خبر عام ہوئی کہ گوہر جان کے گانے اور سیمی کلاسیکل گیت اب گراموفون پر سنے جاسکیں گے تو لوگ بے چینی سے انتظارکرنے لگے کیونکہ گوہر جان کی محفلوں میں کوئی عام آدمی شریک نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ اس کا نذرانہ کم سے کم ایک ہزار روپے تھا۔

پھر وہی بات کہ اس وقت جب گوہر جان گیسپر سے فی ریکارڈ تین ہزار لے رہی ہے اور اپنی محفلوں میں ایک ہزار، تو اس وقت سونا 20 روپیہ تولہ بکتا تھا،گوہر جان نہ صرف برصغیر کی پہلی پلے بیک سنگر بنی بلکہ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ برصغیرکی پہلی مغنیہ تھی جس نے گراموفون کمپنی کے لیے گیت، غزل، ٹھمری،کجری، پہاڑی وغیرہ سب گائے۔ گوہر جان نے تقریباً بیس زبانوں میں گانے گائے جن میں اردو، ہندی،گجراتی، پشتو، پنجابی، تامل، انگریزی، فرنچ، بنگالی، راجستھانی وغیرہ میں گانے گائے۔

گوہر جان کا پہلا گانا جو ریکارڈ کروایا اس کا نام تھا ’’راگ جوگیا‘‘ جو 1902 میں ریکارڈ ہوا اور 1903 میں مارکیٹ میں آیا، جیسے ہی ریکارڈ پبلک کے لیے بازار میں آیا دھڑا دھڑ گراموفون بکنے لگے،کیونکہ گوہر جان کی شہرت ملک بھر میں پھیل چکی تھی وہ اپنے وقت کی کروڑ پتی گلوکارہ اور ڈانسر تھی۔ وہ ایک بار جو لباس پہن لیتی تھی، اسے دوبارہ نہیں پہنتی تھی، اسی طرح جو زیورات وہ ریکارڈنگ کے وقت یا کسی محفل میں پہن لیتی انھیں بھی دوبارہ نہیں پہنتی تھی۔ آج کے لحاظ سے اس زمانے کی کروڑ پتی گائیکہ یقیناً ارب پتی کہلاتی۔

ایک بار مہاتما گاندھی نے گوہر جان سے کہا کہ وہ ’’سوراج‘‘ فنڈ کے لیے پیسے اکٹھا کرے تو گوہر جان نے یہ شرط رکھی کہ وہ فنڈ ضرور اکٹھا کرے گی لیکن گاندھی جی اس محفل میں شریک ہوں گے، گاندھی جی نے یہ شرط مان لی، لیکن وقت مقررہ پر وہ نہ آئے اور محفل ختم ہوگئی، اس محفل سے گوہر جان نے چوبیس ہزار روپیہ اکٹھے کیے، لیکن اگلے دن جب گاندھی جی نے مولانا شوکت علی کو گوہر کے پاس روپے لینے کو بھیجا تو اس نے ان سے کہا کہ ’’آپ کے مہاتما بات تو ایمان کی اور سچائی کی کرتے ہیں، لیکن اپنا وعدہ کرکے بھول گئے، محفل میں شریک نہ ہوئے، شاید اس لیے کہ یہ ایک گانے والی کی محفل تھی۔‘‘ یہ کہہ کر گوہر جان نے صرف بارہ ہزار روپے مولانا شوکت علی کو تھما دیے۔

گوہر دل کی بہت سخی تھی، جتنا کماتی تھی اتنا ہی اڑاتی بھی تھی، ہزاروں کی تعداد میں زیورات، مہنگے کپڑے اور ساڑھیاں، کلکتے میں بہت ساری جائیدادیں، شاہ خرچ اتنی کہ پالتو بلی نے بچے دیے تو ہزاروں لوگوں کو دعوت دے ڈالی۔ اس دعوت پر اس وقت کے لحاظ سے بیس ہزار روپے پھونک ڈالے جو آج کے لحاظ سے تقریباً 9 کروڑ بنتے ہیں یا شاید کچھ زیادہ ہی بنتے ہوں گے۔ گوہر جان منہ مانگا معاوضہ وصول کرتی تھیں، کئی بار برٹش سرکار نے انھیں سرزنش بھی کی کہ وہ اپنا معاوضہ کم کریں، لیکن گوہر جان نے کان نہ دھرا اور منہ مانگا معاوضہ وصول کرتی رہیں۔ انھیں ہارس ریسنگ کا بھی بڑا شوق تھا جس کے لیے وہ ہر سال کلکتہ سے بمبئی آتیں اور گھوڑوں پہ پیسے لگاتیں۔ اس کے علاوہ انھیں نئی نئی گاڑیوں اور قیمتی بگھیوں کا بھی بڑا شوق تھا، قدرت نے بہت کچھ دیا تھا اور وہ قسمت کی دھنی تھیں۔

ایک دفعہ مدھیہ پردیش کی ایک چھوٹی ریاست کے راجہ نے مہاراجہ لکش میشور سنگھ کے توسط سے گوہر جان کوگانے کے لیے بلایا، ریاست چھوٹی تھی، گوہر جان نے مہاراجہ کی وجہ سے جانے کی حامی تو بھر لی لیکن جانے کے لیے بڑی بڑی شرائط رکھ دیں، جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ گوہر جان اور اس کے عملے کے لیے ایک علیحدہ اور مخصوص ریل گاڑی بھیجی جائے جس میں ان کا دھوبی، خانساماں، موسیقار، طبلہ نواز، سارنگی نواز، ڈھولک والے اور دیگر لوگوں کا عملہ شامل ہوگا،گوہر جان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ جشن کے دوران اسے یومیہ دو ہزار روپے بھی ادا کیے جائیں گے اور سونے کی سو اشرفیاں بھی۔ راجہ نے تمام شرائط منظور کر لیں۔

مقررہ دن مخصوص ریل گاڑی میں گوہر جان اپنے عملے کے ہمراہ ریاست پہنچیں، شرائط کے مطابق راجہ نے پورے جشن تک روزانہ دو ہزار روپے جشن کے اختتام پر سو اشرفیاں سبھی کچھ دیا، لیکن راجہ صاحب نے گوہر جان کی شرائط کو اپنی توہین پہ محمول کیا، لہٰذا جشن جاری رہا، گوہر جان کی خوب خاطر مدارات بھی کی گئی، ان کے عملے کو بھی انعامات سے نوازا گیا لیکن کسی بھی دن گوہر کو گانے کے لیے نہیں بلایا گیا، آخرکو گوہر جان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، اس نے راجہ صاحب سے معافی مانگی۔

(جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں