[ad_1]
سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس اطہر من اللہ نے نیو یارک کی سٹی بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں مارشل لاکا خطرہ موجود ہو تو ملک میں رات کو عدالتیں کھلنی چاہیے۔ انھوں نے کہا جب اسلام آباد ہائی کورٹ رات کو کھلی تھی تو اس وقت بھی ایک نجی ٹی وی نے ملک میں مارشل لا کا ماحول بنا دیا تھا‘ چونکہ مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں تھا‘ اس لیے انھوں نے رات کو کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر مارشل لا کا واقعی خطرہ ہوتا تو وہ کوئی حکم پاس کردیتے۔
مجھے یاد ہے کہ اس رات کیا ہوا تھا۔ عمران خان اپنے خلاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلیاں توڑ چکے تھے اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری ایک غیر آئینی رولنگ دے چکے تھے۔ ملک میں فوج کے حکمرانی سنبھالنے کو عرف عام میں مارشل لا سمجھا اور کہا جاتا ہے۔اس وقت بھی آئین ٹوٹ جاتا ہے اور فوج کی حکمرانی غیر آئینی ہوتی ہے۔ اب بھی جب عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی توڑ دی جائے تو آئین ٹوٹ جاتا ہے۔ کیونکہ آئین میں واضح لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی کو نہیں توڑا جا سکتا۔ لہٰذا اس رات آئین ٹوٹ چکا تھا۔
ایک دفعہ آئین ٹوٹنے کے بعد سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا تھا اور ووٹنگ کے لیے تاریخ مقرر کی تھی تو مقررہ تاریخ کو رات بارہ بج گئے تھے۔ دن ختم ہو گیا تھا اورعمران خان تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے تیار نظر نہیں آرہے تھے۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے ایوان میں بیٹھی تھی۔ صبح سے رات ہو گئی تھی لیکن ووٹنگ نہیں کروائی جا رہی تھی۔ پورا ملک دیکھ رہاتھا کہ آئین دوسری دفعہ ٹوٹنے لگا تھا۔ عمران خان کسی آئین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
یہ اس وقت جب دوسری دفعہ آئین ٹوٹنے لگا تو رات کو عدالتیں کھلی تھیں۔ یہ کسی مارشل لا کے خطرے سے نہیں بلکہ ایک ایسے سویلین وزیر اعظم کی وجہ سے رات کو کھلی تھیں جو پہلے ایک دفعہ کھلے عام آئین سے انحراف کر چکا تھا۔ جس کو سپریم کورٹ آئین کا ٹوٹنا قرار دے چکی تھی اور دوبارہ آئین پر واپسی کا حکم دے چکی تھی۔ لیکن وہ سویلین وزیر اعظم اس کے باوجود سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرنے جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت ختم ہو رہی تھی۔ آئین دوسری دفعہ ٹوٹنے لگا تھا۔ تب رات کو عدالتیں کھولی گئی تھیں بلکہ قیدیوں کی ایک وین بھی قومی اسمبلی کے گیٹ پر پہنچ گئی تھی۔ وہ قیدیوں کی وین آئین توڑنے والوں کو گرفتار کر نے کے لیے پہنچی تھی۔ تب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل شروع ہو گیا۔ شاید رات کو عدالتیں کھلنے کا اتنا خوف نہیںتھا لیکن قیدیوں کی وین نے کمال دکھایا اور آئین پر عمل شروع ہو گیا۔
یہ سوال ضرور اہم ہے کہ کون تھا جو دوسری دفعہ آئین کو ٹوٹنے سے روکنے کے لیے رات کو عدالتیں کھلوا رہا تھا اور قیدیوں کی وین قومی اسمبلی کے گیٹ پر پہنچا رہا تھا۔ بہر حال محترم جسٹس اطہر من اللہ کہہ رہے ہیں کہ عدالتوں نے اس رات کوئی حکم نہیں دیاتھا۔ شائد اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو گئی۔ اگر نہ ہوتی تو بہرحال عدالتیں کھل چکی تھی۔ لیکن وہ کون تھا جو یہ سب کروا رہا تھا۔ اس سوال کا جواب ہنوزتشنہ طلب ہے۔
بہر حال اس رات ہم نے دیکھا کہ آئین دوسری دفعہ ٹوٹنے سے بچ گیا۔ شائد اس رات اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں آئین بچانے کے لیے ایک پیج پر تھے۔ دونوں ہی عمران خان کو دوسری دفعہ آئین نہیں توڑنے دینا چاہتے تھے۔
مجھے اس استدلال یا دلیل سے اتفاق نہیں ہے کہ اگر ملک میں مارشل لا کا کو خطرہ ہو تو رات کو عدالتیں کھلنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں جب فوج مارشل لا لگانے کا فیصلہ کر لے تو رات کو عدالتیں کھول کر بھی مارشل لا کا راستہ نہیں روکا جا سکتاہے۔جب فوج نکل آتی ہے تو عدالتیں کھلی ہیں یا نہیں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پہلے آئین توڑتے یا معطل کرتے ہیں‘آئین ٹوٹ چکا ہوتو عدالتیں کیا فیصلہ کریں گی۔پھر پی سی او نافذ ہو گا‘ نئی عدلیہ عمل میں آ جائے گی۔ اس لیے عدالتیں آئین کی حفاظت تب ہی کر سکتی ہیں جب اسٹبلشمنٹ بھی آئین کے ساتھ کھڑی ہو۔
ویسے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم اپنے ملک کے گندے کپڑے بیرون ملک کیوں دھوتے ہیں۔پاکستان کا صدر ہو‘ وزیراعظم ہو‘ اپوزیشن لیڈر ہو یا اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج‘ انھیں بیرون ملک جا کر پاکستان کی اندرونی سیاست پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔
[ad_2]
Source link