[ad_1]
حضرت صفوان بن سلیمؓ سے روایت ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’خبردار! جس شخص نے اس شخص سے ظلم کیا جس سے اس کا معاہدہ ہو چکا ہے یا اس کے حق کو ضرر پہنچایا یا اس کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف دی یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو میں ان سے قیامت کے دن جھگڑوں گا۔‘‘ (ابوداؤد)
اﷲ تعالیٰ نے سورۂ حج میں مہاجرین صحابہ کی ایک خوبی بیان فرمائی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں حکومت و اقتدار دے دیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے کہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور بُرے کاموں سے روکیں۔
یہ آیت ہجرت مدینہ کے فوراً بعد اس وقت نازل ہوئی جب کہ مسلمانوں کو زمین کے کسی بھی حصہ پر حکومت و اقتدار حاصل نہ تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں پہلے ہی خبر دے دی کہ جب ان کو اقتدار حکومت ملے گا تو یہ دین کی اہم خدمات انجام دیں گے اور مکمل نفاذِ شریعت کا فریضہ انجام دیں گے۔ اﷲ رب العزت کی یہ قبل از وقت خوش خبری اسی طرح پوری ہوئی کہ چاروں خلفائے راشدینؓ جو کہ مہاجرین میں سے تھے، نبی کریم ﷺ کی رخصتی کے بعد سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے ان کو زمین کی حکومت اور سلطنت عطا فرمائی اور اولین دور، دورِ خلفائے راشدینؓ تاریخ کا روشن حصہ بنا۔
خلافت کا لفظی مطلب نیابت اور جانشینی ہے اور اسلامی اصطلاح میں خلافت اس حکومت کو کہتے ہیں جو رسول اﷲ ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کو مضبوط اور مستحکم کرے اور دینی احکام کو عوام میں نافذ اور جاری کرے اور جو شخص یہ ذمہ داری انجام دے اسے خلیفہ کہتے ہیں، جس کا تمام ملکی اور قومی نظم و نسق طریقہ نبوت کے مطابق ہو۔ آج تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ خلفائے راشدینؓ کا دور تاریخ اسلام کا ایک سنہری دور ہے مسلمان مؤرخین نے اس دور کے ہر ایک پہلو کو اُجاگر کیا ہی ہے لیکن غیر مسلم مورخین کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ خلفائے راشدینؓ کا دور نہایت شان دار تھا اور ان کا عہد خلافت دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ایک مثالی حقیقت رکھتا ہے، اس دور میں جہاں تمام مسلمانوں کے ہر طرح کے حقوق کا خیال رکھا جاتا وہاں ذمیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔
لفظ ذمی ذمۃ سے بنا ہے ہم اردو میں بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام فلاں کے ذمہ ہے یا یہ میری ذمے داری ہے۔ ذمہ کا مطلب ہوتا ہے، عہد و پیمان، ضمانت، نگرانی، لہٰذا ذمی کا مطلب ہُوا ذمے والا۔ اسلامی اصلاح میں ذمی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست میں رہتے ہوں اور اسلامی حکومت نے ان کے مال و جان اور ان کی آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر لی ہو۔ آج کل شہریت اور علم سیاسیات میں ان کو اقلیت کہا جاتا ہے۔
جس طرح مسلمان رعایا کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت اور ان کی خوش حالی اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اس طرح غیر مسلم اقلیت کا تحفظ اور خوش حالی بھی اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ غیر اقلیت معاشی طور پر بھی آزاد ہوتے ہیں جو پیشہ چاہے اختیار کریں، اقلیتوں کو ہر طرح مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے بہ شرط یہ کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اس سے ٹھیس نہ پہنچتی ہو، اقلیتوں کو مسلمانوں کے ساتھ معاشرتی مساوات بھی حاصل ہوتی ہے۔
اولین دور میں ذمیوں یعنی اقلیتوں کے مال و جان کی حفاظت کے بدلے انہیں ایک معمولی سا ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جسے جزیہ کہا جاتا ہے۔ بچے، بوڑھے، اور معذو ر افراد اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور جو ذمی معذور یا محتاج ہوتا اسے قومی بیت المال سے وظیفہ ملتا۔
رسول اﷲ ﷺ نے آخری وقت میں ذمیوں یعنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی تھی، اسی لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ان کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ عہد رسالتؐ میں اقلیتوں کے حقوق متعین ہو چکے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں بھی ان کو وہی حقوق حاصل رہے اور نئے ذمیوں کو بھی وہی حقوق عطا کیے۔ چناں چہ حیرہ کے عیسائیوں سے ذمے داری کا معاہدہ کرتے ہوئے طے پایا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا محل گرایا جائے گا جو ان کو دشمنوں سے بچاؤ کے کام آتا ہو، ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکا جائے گا۔
اقلیتوں کے لیے جزیہ کی صورت کا ٹیکس بھی نہایت آسان تھا اور بہت سے ذمی اس سے مستثنیٰ کر دیے جاتے تھے، چناں چہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور اقلیتی فرد سے دس درہم سالانہ لیا جاتا تھا اور اپاہج اور نادار ذمیوں سے مخصوص ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور ان کی کفالت کا بیت المال ذمے دار تھا۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ کسی حکومت کے عدل و انصاف اور مساوات کو جانچنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ اس حکومت کا طرز عمل غیر قوموں کے ساتھ کیسا ہے اور اس حکومت میں اقلیتوں کو کیا حقوق حاصل ہیں اور ریاست اقلیتوں کی خوش حالی کے لیے کیا کردار ادا کر رہی ہے اس معیار کے اعتبار سے عہد فاروقی عدل و مساوات کا نمونہ تھا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور میں عرب کی دو ہمسایہ حکومتیں تھیں ایک روم اور دوسری فارس، یہ دونوں حکومتیں عہد فاروقی میں اسلام کے زیر سایہ آئیں ان دونوں حکومتوں کا طرز عمل خود اپنی قوم کی رعایا کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر تھا تو دوسری ماتحت قوموں کا حال خود ہی سوچ لیجیے کیا ہوگا؟ لیکن جب یہی قومیں اسلام کے زیر نگیں ہوئیں تو ان کی حالت ہی بدل گئی ہر طرح کے جائز حقوق اور جائز آزادی دی گئی اور اقلیتوں کو خوش حالی نصیب ہوئی۔
کسی قوم کے حقوق بنیادی طور پر تین چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں جان، مال اور مذہب ان کے علاوہ باقی حقوق ان کے تحت آجاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تمام مفتوحہ قوموں کے ان تینوں بنیادی حقوق کا ذکر کیا، اس دستاویز کا آغاز ان کلمات سے ہوتا ہے: ’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اہل ایلیا کو دی یہ امان جاں و مال، گرجا، صلیب، تن درست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذہب کے لیے ہے۔‘‘
مستند تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ یہ حسن سلوک صرف چند مقامات کے لیے نہیں تھا بل کہ اہل جرجان کے لیے مراعات کے الفاظ گواہ ہیں۔ آذر بائیجان کا معاہدہ، موقان کا معاہدہ اور پھر خلفائے راشدینؓ کے وہ خطوط موجود ہیں جن میں تمام فاتح جرنیلوں کو اور تمام حکومت کے ذمے دار افراد کو تاکید کی جاتی تھی کہ اقلیتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان اقلیتوں میں سے کسی ذمی کو قتل کر دیتا تو خلفائے راشدین اس سے قصاص لیتے۔ چناں چہ الدرایہ فی تخریج الہدایہ میں ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے عیسائی کو قتل کر دیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا اور انہوں نے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح اقلیتوں کی املاک کو کوئی نقصان پہنچتا تو اس کو معاوضہ دلایا جاتا۔ ایک مرتبہ فوج نے شام کے ایک ذمی کے کھیت کو روند ڈالا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو بیت المال سے دس ہزار کا معاوضہ دلایا۔
پھر ذمیوں سے جزیہ کی شکل میں جو ٹیکس لیا جاتا تھا اس کی حیثیت خلفائے راشدین کے معاہدوں میں موجود ہے کہ یہ صرف ذمہ داری اور حفاظت کے لیے ٹیکس تھا۔ اور اس ٹیکس کی وصولی میں انتہائی احتیاط کی جاتی اور اس بات کا بڑا اہتمام کیا جاتا کہ ٹیکس کی کوئی رقم جبراً اور ظلم سے وصول نہ کی جائے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دور میں ذمیوں نے شکایت کی کہ ہمارے عامل عمرو بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ سختی کر رہے ہیں، حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان کو فوراً تحریری ہدایات روانہ کیں۔ ایک مرتبہ جس علاقہ میں اقلیتی رہتے تھے وہاں کی نہر میں مٹی زیادہ ہونے کی وجہ سے آب پاشی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو وہاں کے حاکم حضرت قرضہ بن کعب انصاری رضی اﷲ عنہ کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جو الفاظ لکھے وہ ایک روشن مثال ہے:
’’تمہارے علاقے کے اقلیتوں نے درخواست دی ہے کہ ان کی ایک نہر مٹی آنے کی وجہ سے بند ہوگئی ہے اس کا بسانا مسلمانوں کا فرض ہے تم اسے دیکھ کر درست کرا کے آباد کر دو، مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ اقلیتی لوگ ملک سے نکل جائیں یا وہ عاجز اور درماندہ ہو جائیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا دور ہے ایک مرتبہ ایک ضعیف شخص کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا: ’’بھیک کیوں مانگتے ہو‘‘ اس نے کہا: ’’میں اقلیت سے تعلق رکھتا ہوں مجھ پر جزیہ لگا ہوا ہے اور میں جزیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اس اقلیتی کو اپنے گھر لے گئے اور کچھ نقد دیا اور پھر داروغہ سے کہلا بھیجا کہ اس قسم کے لوگوں سے جزیہ نہ لیا جائے اور بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ غیر مسلم اقلیتوں سے خلفائے راشدینؓ کا طرز عمل ان کے حقوق کا تحفظ اور ان کی خوش حالی کی فکر، یقیناً سب کچھ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے ثمرات تھے۔
[ad_2]
Source link