18

رُک جائیے۔۔۔۔ ! سوچ لیجیے!

[ad_1]

اﷲ تعالیٰ ہمیں تمام نیک اوصاف اپنانے اور بُرے اعمال سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو، کسی کے بھاؤ تاؤ پر بھاؤ نہ لگاؤ، اﷲ کے بندو! ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس لیے اس پر ظلم نہ کرے، اسے رسوا نہ کرے، اسے (سچی بات میں) جھٹلائے نہیں اور اس کی اہانت نہ کرے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا: تقویٰ کی جگہ یہ (دل) ہے۔ مزید ارشاد فرمایا: انسان کے شریر ہونے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت (کو نقصان پہنچانا ) حرام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

مذکورہ حدیث مبارک میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے نمبر پر جس برے وصف سے منع فرمایا ہے، وہ باہمی حسد ہے۔ حسد کا معنی یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی دینی یا دنیاوی نعمت مثلاً مال و دولت، حسن و جمال، شہرت و مقبولیت، صلاحیت و استعداد یا علم و دیانت وغیرہ دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ کاش وہ نعمت اس کے بہ جائے مجھے مل جائے یا کم از کم اُس کے پاس بھی نہ رہے۔ حسد کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ جیسے میں اس نعمت سے محروم ہوں دوسرا شخص بھی محروم ہو جائے۔

حسد نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’اپنے آپ کو حسد سے خوب اچھی طرح بچاؤ کیوں کہ حسد نیکیوں کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے خشک لکڑیوں کو آگ ختم کر دیتی ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

وہ انسان کس قدر بے وقوف ہوگا جو نیکیاں کم گناہ زیادہ کرتا ہے لیکن اس سے بڑا ایک اور بے وقوف ہے جو نیکیاں کم کرنے کے باوجود ان کو بھی ضایع کر بیٹھتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے، مفہوم:

’’اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جو محنت سے سوت کاتے پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔‘‘ (سورۃ النحل)

حسد، خیر کا دشمن:

حضرت ضمرہ بن ثعلبہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’لوگ اس وقت تک سلامت رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے پر حسد نہ کریں گے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)

نجس اور دھوکے بازی سے اجتناب :

مذکورہ حدیث مبارک میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسرے نمبر پر جس برے وصف سے منع فرمایا ہے، وہ دھوکے بازی ہے۔

نجش کا معنیٰ: خرید و فروخت میں دھوکے بازی، ہر معاملے میں دھوکا بازی اور سود خوری کے بارے میں شرعی احکام درج ہیں۔

خرید و فروخت میں دھوکہ بازی:

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجارت میں دھوکہ بازی سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)

سامان کے ساتھ کسی اور چیز کو خریدنے کی شرط لگانا جس کی وجہ سے دکان دار (بیچنے والے) کو فائدہ ہو اور خریدار کو نقصان ہو اسے فقہ اسلامی میں بیع نجش کہتے ہیں۔ اس طرح کرنا شرعاً گناہ ہے۔

ہر معاملے میں دھوکے بازی:

حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص ہمارے (اہل اسلام) سے دھوکے بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں، مکر و فریب اور دھوکا بازی جہنم جانے کا ذریعہ ہے۔‘‘

(صحیح ابن حبان)

دھوکہ باز ملعون ہے:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص ملعون ہے جو کسی مومن کو دھوکا دے یا اس کے ساتھ مکر و فریب کرے۔‘‘ (جامع الترمذی)

اسلام میں دھوکا بازی حرام ہے کیوں کہ اس سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جس میں کسی مسلمان کو نقصان پہنچتا ہو۔

سود خوری کی مذمت:

مفہوم آیت:        ’’سود کھانے والے لوگ جب قیامت والے دن قبروں سے اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس (پاگل) بنا دیا ہو یہ (عذاب) اس لیے ہوگا کہ دنیا میں یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے بیع کو حلال جب کہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت (سود کی واضح حرمت) آگئی ہو اور وہ اس کی وجہ سے سودی معاملات سے آئندہ کے لیے باز آ گیا تو گزشتہ زمانے میں جو کچھ سودی معاملہ ہو چکا، سو وہ ہو چکا۔ اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے۔ اور جو شخص دوبارہ سود والے حرام کام کی طرف لوٹا وہ جہنمی ہے وہ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

اﷲ سود کو گھٹاتے ہیں:

مفہوم آیت:        ’’اﷲ تعالیٰ سود کے مال کو گھٹاتے ہیں اور صدقہ کے مال کو بڑھاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’سود اگرچہ دیکھنے کے اعتبار سے زیادہ ہی دکھائی دے لیکن انجام کے اعتبار سے کم ہی ہوتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)

سودی معاملات کرنے والوں پر لعنت:

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے سود کھانے، سود دینے، سودی حسابات و معاملات لکھنے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تمام لوگ گناہ گار ہونے میں برابر کے شریک ہیں۔ (صحیح مسلم)

اﷲ تعالیٰ احکام شریعت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

The post رُک جائیے۔۔۔۔ ! سوچ لیجیے! appeared first on ایکسپریس اردو.

[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں