[ad_1]
کراچی: تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں غریب گھرانوں میں انتقال کر جانے والے افراد کی تدفین کے لیے سرکاری اور فلاحی سطح پر کوئی مفت بس سروس موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قبرستان مختص ہے۔
شہر میں فلاحی تنظیموں، انجمنوں اور برادریوں کے پاس ایک اندازے کے مطابق صرف 100 میت بسیں موجود ہیں، جس میں 60 فیصد فلاحی تنظیموں اور 40 فیصد انجمنوں کے پاس موجود ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، مرمت اور ملازمین کی تنخواہیں بڑھنے کی وجہ سے مختلف فلاحی تنظیموں اور انجمنوں نے میت بسوں کے کرایوں میں فاصلے کی مناسبت سے 50 سے 70 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
میت بسوں کے چارجز میں کم سے کم فاصلے کا کرائے میں 2 ہزار روپے اور درمیانی فاصلے کے کرائے میں 3 ہزار روپے اور طویل فاصلے کے کرائے میں 5 ہزار روپے یا اس سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
سماجی ماہر نے کہا کہ حکومت کراچی میں ایک ایسی فلاحی سروس شروع کرے جس کے ماتحت مفت بس سروس اور قبرستان کی سہولت غریب افراد کے لیے ہونی چاہیے۔ وزیر بلدیات سندھ نے بتایا کہ حکومت سندھ 1122 سروس کا دائرہ کار بڑھا رہی ہے، جس کے تحت جلد غریب افراد کے لیے مفت میت بس سروس کی سہولت ہوگی۔
ایکسپریس ٹریبیون نے کراچی میں مفت میت بس سروس کی سہولت نہ ہونے کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔
بلدیہ عظمی کراچی کے حکام کے مطابق کراچی میں کل 213 چھوٹے بڑے قبرستان ہیں جن میں سے کے ایم سی کی حدود میں 39 قبرستان واقع ہیں۔ ان قبرستانوں میں عیسیٰ نگری، سخی حسن، محمد شاہ قبرستان، یاسین آباد، میوہ شاہ، پاپوش نگر، لیاقت آباد، کورنگی، سوسائٹی، ماڈل کالونی، عظیم پورہ اور دیگر شامل ہیں۔ ان میں بیشتر بڑے قبرستان ایسے ہیں جہاں تدفین بند ہو چکی ہے۔
سماجی رہنما اور ایک فلاحی ادارے کے ریسکیو اور ریلیف کے منتظم قاضی صدرالدین نے بتایا کہ کراچی کی آبادی تقریباً 3 کروڑ سے زائد ہے۔ یہاں روزانہ سیکڑوں افراد مختلف وجوہات کی بنا پر انتقال کر جاتے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب شہر کے قبرستان میں تدفین کی جگہ بھی نہیں بچی ہے اور لوگ اضافی قیمتوں پر اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے قبر خریدتے ہیں۔ ہر قبرستان میں قبر کا معاوضہ الگ ہے جبکہ کوئی قبرستان ایسا نہیں جہاں مفت تدفین ہو تاہم لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے ایک فلاحی ادارے کا قبرستان موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں سرکاری یا فلاحی سطح پر میتوں کی قبرستان منتقلی کے لیے کوئی مفت بس سروس موجود نہیں ہے۔ فلاحی اداروں، انجمنوں اور مقامی برادریوں کے پاس ایک اندازے کے مطابق صرف 100 میت بسیں موجود ہیں جن میں 60 فیصد فلاحی اداروں اور 40 فیصد مقامی انجمنوں اور برادریوں کے پاس میت بسیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر فلاحی ادارے اور انجمن کے ماتحت میت بس سروس کے چارجز الگ الگ ہیں۔
فلاحی ادارے کے منتظم حاجی احمد رضا طیب نے بتایا کہ مہنگائی کے باعث میت بسوں کی خریداری فلاحی تنظیموں، انجمنوں اور برادریوں کے لیے خریدنا ناممکن ہوگیا ہے۔ مختلف اقسام کی بڑی نئی میت بس تقریباً ڈیڑھ سے 2 کروڑ روپے کی ہیں اور استعمال شدہ اچھی حالات میں میت بسیں تقریباً 50 سے 70 لاکھ کے درمیان ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث فلاحی ادارے نئی بسوں کے بجائے اچھی حالات میں موجود استعمال شدہ ٹرانسپورٹ بسیں خرید رہے ہیں جن کی وہ مرمت کروا کر انہیں میت بسوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری اور سماجی سطح پر میت بسوں کی مفت سروس موجود نہیں ہے۔
حاجی احمد رضا طیب نے کہا کہ میت بسوں کے کرایوں میں 50 سے 70 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، بسوں کی مرمت پر آنے والے اخراجات اور ڈرائیورز اور رضا کاروں کی تنخواہوں میں ہونے والا اضافہ ہے، کم سے کم فاصلے کا کرائے میں 2 ہزار روپے اور درمیانی فاصلے کے کرائے میں 3 ہزار روپے اور طویل فاصلے کے کرائے میں 5 ہزار روپے یا اس سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس درمیانی سائز کی میت بس کا کرایہ کم از کم 6ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے اور فاصلے کی مناسبت سے یہ کرایا 12 ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے جبکہ بڑی سائز کی میت بس کا کرایہ کم از کم 8 ہزار سے لے کر 15 ہزار روپے یا اس سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ فری میت بس سروس فراہم کرنا فلاحی تنظیموں کے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ مہنگائی اور معاشی صورت حال کے باعث فلاحی تنظیموں کو ملنے والے عطیات میں دیگر کام بھی کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص جو تدفین کے اخراجات برداشت نہ کر سکے تو پھر زکوٰة اور دیگر فنڈز سے اس کی تدفین، میت بس اور قبر کا انتظام کیا جاتا ہے۔
ایک انجمن کے منتظم اعلی خواجہ محمد منصف نے بتایا کہ ہماری برادری کی انجمن کے پاس ایک میت بس سروس ہے، جو برادری کے مخیر حضرات نے تقریباً استعمال شدہ حالت میں تقریباً 55 لاکھ روپے کی خریدی اور اس کی مرمت اور بحالی پر 5 لاکھ روپے اضافی خرچ کیے گئے۔ اس بس کے ماہانہ اخراجات تقریباً 60 ہزار روپے ہیں جس میں ڈرائیور کی تنخواہ 30 ہزار روپے، مرمت اور دیگر متفرق اخراجات پر 20 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم میت بس 6 ہزار روپے پر فراہم کرتے تھے لیکن اب اس کے کرائے کو فکس کر دیا گیا ہے اور میت بس سروس کے چارجز 9 ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔
فلاحی ادارے کے منتظم شکیل دہلوی نے بتایا کہ مفت بس سروس کی فراہمی کے لیے ہمارا ادارہ اور دیگر فلاحی ادارے خدمات فراہم کرتے ہیں لیکن اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے درخواست دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ کوائف منسلک ہوتے ہیں اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ ہم میت بس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ پھر درخواست کا جائزہ لے کر یہ سروس مفت فراہم کی جاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں انتقال کر جانے والے ایک شخص حسن کے صاحبزادے ولید نے بتایا کہ ان کے والد گزشتہ کئی دنوں سے بیمار تھے اور ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، ان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی تدفین ملیر قبرستان میں کی گئی۔ لیاقت آباد سے ملیر قبرستان کا فاصلہ 27 کلو میٹر تھا، ایک نجی ادارے سے میت بس سروس حاصل کی جس کے چارجز کی مد میں 15ہزار روپے ادا کیے۔ تدفین سے لے کر سوئم تک کے تمام مراحل پر تقریباً دو لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے چچا کا انتقال 6 ماہ قبل ہوا تھا، ان کی تدفین بھی ملیر قبرستان میں کی گئی تھی اور اس بڑی میت بس کا کرایہ 10 ہزار روپے تھا لیکن 6 ماہ میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر میت بس سروس کے چارجز میں اضافہ کر دیا گیا۔
گاڑیوں کی مرمت کرنے والے ایک ہیلپر اختر حسین نے بتایا کہ ان کی والدہ کا انتقال ایک ماہ قبل ہوا تھا، ہمارا تعلق غریب طبقے سے ہےا اور تدفین کے اخراجات کے لیے رشتہ داروں نے مدد کی۔ کراچی میں اگر کوئی غریب مر جائے تو اس کے لیے مفت قبر یا میت بس کا سرکاری یا فلاحی سطح پر کوئی مربوط انتظام نہیں ہے، اگر کسی فلاحی تنظیم سے رجوع کیا جائے تو وہ زکوٰة فنڈ سے اس کی مدد کرتے ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم کے تعاون سے میری والدہ کے لیے قبر اور میت بس سروس کا انتظام ہوا۔
سماجی رہنما ناصر خان نے بتایا کہ حکومت سندھ یا مقامی حکومتوں کی جانب سے غریبوں کے لیے مفت تدفین کی سہولت ہونی چاہیے، اس سہولت کا نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ کراچی میں روزانہ کئی غریب گھرانوں میں اموات ہوتی ہیں، یہ لوگ اپنے مرحوم کی تدفین کے لیے ادھار یا قرضہ لے کر تدفین کے انتظامات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کا انتقال بھی حالیہ دنوں میں ہوا، سوسائٹی قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی اور اس کے لیے دو میت بسوں کا کرایہ تقریباً 18 ہزار روپے ادا کیا گیا۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں زندہ لوگوں کے لیے بنیادی سہولیات کی کمی ہے تو مرنے والے افراد کے لیے حکومت کس طرح کوئی سہولت دے سکتی ہے، اس کا جواب تو سرکاری حکام ہی دے سکتے ہیں۔
ایک میت بس کے ڈرائیور ہاشم نے بتایا کہ وہ ایک فلاحی ادارے سے 20 سال سے وابستہ ہیں، زیادہ تر میت بسیں پرانی ہیں، میت بسوں کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے، زیادہ تو ڈرائیورز اور رضا کاروں کو 25 سے 30 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اور ہر ماہ فی میت بس پر مرمت کی مد میں تقریباً 20 ہزار روپے سے زائد اخراجات ہوتے ہیں۔
جامعہ کراچی کی شعبہ سماجیات کی پروفیسر ڈاکٹر کوثر پروین نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کراچی میں اب غریب افراد کے لیے مرنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی غریب گھرانے میں کوئی مر جائے اور ان کے پاس اپنے پیارے مرحوم کے لیے تدفین کے اخراجات نہ ہوں تو وہ چندہ کرتے ہیں یا پھر قرضہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر کراچی میں مفت میت بس سروس سمیت قبرستان کی کوئی سہولت نہیں ہے، میری رائے ہے کہ حکومت کراچی میں ایک ایسی فلاحی سروس شروع کرے، جس کے ماتحت مفت بس سروس اور قبرستان کی سہولت غریب افراد کے لیے ہونی چاہیے۔
وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ کراچی میں شہری علاقوں میں قبرستان کے لیے نئی اراضی مختص کرنا ناممکن ہے، اسی لیے صوبائی اور مقامی حکومتیں مل کر نئے قبرستان کی اراضی مختص کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ کراچی میں سرکاری سطح پر مفت میت بس سروس اور قبرستان کیوں موجود نہیں ہے جس کے جواب میں وزیر بلدیات نے کہا کہ حکومت سندھ نے عوام کے لیے ریسکیو سروس 1122 شروع کی ہے اور ہم آئندہ دنوں میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسی سروس کے تحت مفت بس سروس بھی شروع کی جائے۔
[ad_2]
Source link