[ad_1]
لاہور: لاہور چڑیا گھر کے سانپ ہاؤس کا ٹھیکہ منسوخ کرنے اور اسنیک ہاؤس کو بند کرنے کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا،لاہور ہائیکورٹ نے سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات پنجاب کو 26 ستمبر کو طلب کرلیا۔
لاہور چڑیا گھرنے 16 اگست 2023 کو سانپ گھر کا ٹھیکہ دو کروڑ 10 لاکھ روپے میں دو سال کے لیے ایک نجی کمپنی کو دیا تھا لیکن دسمبر 2023 میں نگراں وزیر اعلی پنجاب نے لاہور چڑیا گھر کی ری ویپنگ کا فیصلہ کیا جس کے بعد چڑیا گھر کو بند کردیا گیا اور یہاں نئی تعمیرات کی گئی ہیں۔
گزشتہ ماہ لاہور چڑیا گھر کو سیاحوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا لیکن سانپ گھر کے ٹھیکے کی حامل کمپنی کوسانپ گھر کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے خلاف نجی کمپنی نے صرف سیشن کورٹ سے حکم امتناہی حاصل کرلیا بلکہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی لاہور چڑیا گھر انتظامیہ اور سیکرٹری جنگلات، جنگلی حیات پنجاب کو فریق بناتے ہوئے پٹیشن دائر کی ہے۔
درخواست میں کمپنی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ انتظامیہ نے ری ویپنگ پراجیکٹ کے تحت سانپ گھر کو ریپٹائل بریڈنگ سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے 96 ملین روپے مالیت کے ریپٹائل بیرون ملک سے بھی منگوائے گئے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق انتظامیہ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ بغیرکسی نوٹس ٹھیکہ منسوخ کردے ۔ نجی کمپنی نے کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات پنجاب کو 26 ستمبر 2024 کو طلب کیا ہے۔
دوسری طرف نجی کمپنی کی طرف سے حکم امتناہی حاصل کیے جانے کے بعد سانپ ہاؤس اس کیس کے فیصلے تک بند رہے گا جس سے لاکھوں روپے مالیت کے ریپٹائل کے مرنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے بعض ایسے سانپ اور اژدھے بھی امپورٹ کیے ہیں جن کی مالیت لاکھوں روپے ہے۔
دوسری طرف لاہور چڑیا گھر میں تفریح کے لیے آنیوالوں کوجہاں پہلے ہی جانوروں اور پرندوں کی کمی کی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں سانپ گھر بند ہونے سے وہ مزید مایوس ہوجاتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے انتطامیہ کو جلد سے جلد سانپ گھر کھولنا چاہیے۔
اس حوالے سے لاہور چڑیا گھرکی انتظامیہ کا کہنا ہے جب کوئی بھی ٹھیکہ دیا جاتا ہے تواس شرائط میں یہ واضح لکھا ہوتا ہے کہ انتطامیہ کسی بھی وجہ سے ٹھیکہ منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق نجی کمپنی نے جو رقم ٹھیکے کے لیے جمع کروا رکھی ہے وہ اسے واپس کردی جائے گی، جبکہ عدالت میں بھی انتظامیہ اپنا موقف سامنے رکھے گی۔
انتظامیہ سمجھتی ہے کہ نجی کمپنی کے پاس یہ صلاحیت نہیں کہ وہ انتہائی قیمتی غیر ملکی ریپٹائلز کی بریڈنگ اوران کی دیکھ بھال کرسکے، جبکہ نجی کمپنی کا یہ کہنا ہے ان سے اس بارے نہ تو کوئی مشاورت کی گئی اور نہ ہی کوئی نوٹس دیا گیا۔
[ad_2]
Source link