[ad_1]
تحقیق کی روشنی میں، سندھی زبان کی تشکیل کی بالکل صحیح تاریخ، ابھی لکھی جانی ہے۔ تحقیقی مضامین اور کتب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس علاقے میں صدیوں سے مقیم متعدد اقوام میں شامل، جَت یا جٹ (جاٹ: عربی میں زط) قوم کی زبان ہی ترقی پا کر سندھی بنی۔
اس انکشاف کی روشنی میں تاریخ اسلام کے بعض گوشوں پر بھی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے، کیونکہ اس قوم کے جنگجو پہلے ایران اور پھر عرب کے (مسلم) لشکر کا حصہ بنے، نیز اِن میں متعدد نے اسلام قبول کیا اور کچھ کو تابعیت کا شرف ملا یعنی وہ کسی صحابیؓ کے ہاتھ پر اِسلام لائے یا اُنھوں نے کسی صحابیؓ کا دور دیکھا۔ چونکہ یہ قوم اور اُن کی زبان قدیم ہے، لہٰذا اس پہلو سے بھی تحقیق کی جانی چاہیے کہ آیا اس کی تشکیل میں خطے میں پہلے سے موجود اور ترقی پذیر قدیم (اشکال والی) عربی کا بھی کچھ ہاتھ ہے۔ یہاں اپنے بزرگ کرم فرما پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم کی یہ عبارت بھی تائید میں نقل کرتا ہوں: ’’سندھی اور اُردو کے لسانی وثقافتی روابط کئی صدیوں پر مُحیط ہیں۔
لسانی رابطے میں سب سے اہم اور بنیادی رشتہ عربی کا ہے اور ثقافتی رابطے میں سب سے اہم کردار اسلام نے ادا کیا ہے …….سندھ کے ساحلی علاقوں سے عربوں کے تجارتی تعلقات طلوعِِ اسلام سے پہلے ہی قائم ہوچکے تھے جن کی بناء پر سندھی زبان نے جُزوی طور پر عربی کے اثرات بھی قبول کیے لیکن جب سندھ پر عربوں کی حکومت قائم ہوئی تو نہ صرف اس خطے میں عربی زبان کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا بھی ہونے لگا۔
سندھ پر عربوں کی حکومت 712ء سے 1050ء تک قائم رہی ۔ اس طویل عرصے میں سندھی زبان، عربی الفاظ و اصطلاحات سے مالامال ہوئی۔ سندھی علماء نے تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر اِسلامی علوم وفنون میں نام پیدا کیا۔ سندھی شعرواَدب پر بھی عربی کے ہمہ گیر اَثرات پڑے‘‘۔ (سندھی اور اُردو کے لسانی اور ثقافتی روابط از پروفیسر آفاق صدیقی، روزنامہ جنگ مؤرخہ 29اپریل 1992ء)۔ تاریخ کے مختلف ابواب کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ نہ صرف سندھی، بلکہ کئی زبانوں میں مختلف وجوہ سے ایسا ہوا کہ عربی الاصل الفاظ براہِ راست داخل ہونے کی بجائے فارسی کے ذریعے آئے۔
منقولہ بالا تحریر کے باوجود، اردو کے سندھی سے دیرینہ مراسم کی ابتداء کا کوئی صحیح تعین نہیں کرسکتا، البتہ یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ چونکہ اردو اسی خطے کے ہر علاقے میں مقامی زبانوں اور بولیوں کے فطری ملاپ اور اشتراک سے پروان چڑھ رہی تھی تو ایسے میں سندھ میں بھی بہ یک وقت دو دھارے چلے ہوں گے: ایک تو خود سندھی کی پرداخت کا سلسلہ اور دوسرے اردو کی مقامی بولیوں سے آمیزش جس میں علماء، صوفیہ، تُجّار، فاتحین، حملہ آور جنگجو، سپاہ، سیاح اور اہلِِ ادب کا یکساں حصہ رہا۔ یہاں ایک اور دل چسپ نکتہ قارئین کرام کی معلومات کے لیے پیش کرتا ہوں۔
مشہور بات تو یہی ہے کہ سندھی کا موجودہ عربی (خطِ نسخ میں) رسم الخط اِنگریز کی دین ہے، جبکہ دیگر مختلف قسم کے رسم الخط مسترد اور متروک ہوگئے یا کردیے گئے تھے، مگر بعض محققین کا خیال ہے کہ عربی رسم الخط میں سندھی لکھنے کا رِواج بھی صدیوں پرانا ہے، البتہ اسے سرکاری وعوامی حمایت و سرپرستی مدتوں بعد ملی۔ زمانہ قدیم سے سندھی کے لیے برہمی، پالی، گُرمُکھی، خوجکی، گُجراتی، خُداوادی اور دیوناگری رسم الخط استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان میں آج بھی عربی نسخ کے ساتھ ساتھ دیوناگری رائج ہے، ملازمت کے لیے مقابلے کے امتحان میں دونوں میں کسی ایک کے انتخاب کی اجازت ہے۔ وہاں 1948ء میں کچھ جدّت طرازی کے ساتھ نیا رسم الخط لانے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔[Birhami, Paali, Gurmukhi, Khojki, Gujrati and Devnagri]
اب ذرا یہ اقتباس بھی دیکھیے: ’’کیپٹن اسٹیک نے 1845ء عیسوی میں سندھی زبان کا گرامر ترتیب دیا۔ یہ کتاب دیوناگری لپی میں لکھی گئی۔ (سندھی زبان کی اہمیت و ارتقائی عمل تحریراَز شبنم گل، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس ،جمعرات 28 مئی 2015ء)۔ مجھے اپنی فیس بک دوست محترمہ شبنم گُل کی اس تحریرمیں دو جگہ تصحیح کرنی پڑے گی:
ا)۔ کیپٹن اسٹیک [Captain George Stack] نے1849 ء میں سندھی زبان کے قواعد پر مبنی کتاب دیوناگری رسم الخط میں لکھی جو مابعد عربی الاصل رسم الخط میں پروفیسر قلندرشاہ نے منتقل کی اور پھر انگریزی میں ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے ترجمہ وترتیب دیا تو 2011ء میںسندھی لینگوئج اتھارٹی، حیدرآباد نے Endowment Fund Trust for Preservation of Heritage of Sindh, Karachi کے مالیاتی تعاون سے شایع کی۔ یہ کتاب www.archive.org پر دستیاب ہے۔
ب)۔ مذکورہ کتاب سے بھی پہلے 1836ء میں یہ کارنامہ William Henry Wathenنے انجام دیا تھا۔ (’’جدید سندھی گرامر جی ضرورت‘‘ از ڈاکٹر آفتاب اَبڑو، مشمولہ سندھی تحقیقی جریدہ، سندھی بولی ریسرچ جرنل، محوّلہ ’تحقیقات، تحقیقی اشاریہ‘: https://tehqeeqat.org/urdu/articleDetails/16676)۔
سندھی گرامر مرتب کرنے والوں میں ایک اہم نام Dr Ernest Trump (13 مارچ 1828ء تا 5اپریل 1885ء ) کا ہے۔ قدیم زبانوں اور مشرقی علوم کا ماہر یہ فاضل شخص مسیحی مبلّغ اور جرمنی کی جامعہ میونخ میں استاد تھا۔ اس نے ہندوستان کے قیام کے دوران میں، پہلے تو 1850ء میں سندھی سے متعلق لسانی امور میں دل چسپی لی پھر دیگر زبانوں نیز سکّھوں کے مخطوطات (یعنی گُرمُکھی رسم الخط میں تحریر پنجابی) کا مطالعہ کیا تاکہ اُس کے مبلغ بھائیوں کی مدد ہوسکے۔ اُس نے سکّھوں کی مقدس کتاب گُروگرنتھ صاحب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ 1870ء کی بات ہے۔ سندھی گرامر پر اُس کی کتاب Sindhi Alphabet and Grammarکے نام سے شایع ہوئی۔ یہ کتاب اتنی مفید ثابت ہوئی کہ ایک مدت تک اس جہت میں کام کرنے والوں نے اسی کی تقلید کی۔ ڈاکٹر ٹرمپ، سندھی کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مداح تھے۔ انھوں نے انگریزی میں کلام ِ شاہ کی تشریح بیان کی ہے۔
یہاں ہمیں ڈاکٹر غلام علی الّانا کی تحریر کا یہ اقتباس اہم لگتا ہے: ’’اٹھارویں صدی تک سرکاری طور پر سندھی صور تخطی (رسم الخط) کو ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ فارسی، ادبی و سرکاری زبان تھی۔ سندھی روزمرہ میں استعمال کی جاتی تھی۔ سندھی زبان کو تعلیم، خط و کتابت کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ہندو و مسلمان سندھی کاروباری زبان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ہندو اُس وقت دیوناگری طریقے کی صورتخطی استعمال کرتے تھے۔‘‘ (سندھی زبان کی اہمیت و ارتقائی عمل تحریر: شبنم گل )۔ ایک متفقہ سندھی رسم الخط کے رواج کے لیے رچرڈ برٹن ( Sir Richard Francis Burton :19 مارچ 1821ء تا 20 اکتوبر 1890ء) کی خدمات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مشرقی علوم اور زبانوں (بشمول اردو، سندھی، پنجابی، گجراتی، مراٹھی، سرائیکی)، نیز عربی وفارسی کے ماہر، برٹن نے 1853ء میں مسلمان نام عبداللہ رکھ کر سرزمین نجد وحجاز کی سیاحت کی اور حج بھی کیا (ماقبل دو غیرمسلم Ludovico di VarthemaاورJohann Ludwig Burckhardt نے 1503ء اور 1815ء میں حج کیا تھا)۔
اُسے کُل 29 زبانیں آتی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ کیتھولک مسیحی، ناگر برہمن (ہندو) اور سِکھ مذہب اختیار کرنے کے بعد مسلمانوں جیسا ہوگیا، باقاعدہ ختنہ کروایا اور اپنے آپ کو حافظ کہلواتا تھا۔ اُس نے سندھ کے زائرین کے درمیان رہ کر سفرِ حج کیا اور مسلم ہئیت اختیار کی تھی۔ اُس نے سفرِ حج کا احوال اپنی کتاب Personal Narrative of a Pilgrimage to Al Madinah and Meccah میں بیان کیا ہے۔ وہ ایشیا کے علاوہ افریقہ اور امیریکاز کی سیاحت بغرضِ ملازمت (بطور کونسل جنرل) بھی کرچکا تھا۔ اس کے لسانی کارناموں میں مشہور زمانہ داستان الف لیلہ و لیلہ (ایک ہزار ایک راتوں کی داستان) کا انگریزی ترجمہ Arabian Nights تھا۔ {یہ بات دُہراتا چلوں کہ بظاہر عربی میں لکھی یا بیان کی گئی اس داستان کی تشکیل میں دنیا کی مختلف اقوام کے بہت سے گمنام افراد کا حصہ ہے۔
نہایت دل چسپ، مگر قدرے غیرمتعلق انکشاف یہ ہے کہ انگریزی سے بھی پہلے اس اہم کتاب کا فرینچ زبان میں ترجمہ Antoine Galland (آں توان گالاں) نے 1704ء تا 1717ء کیا اور اس کا نام رکھا:Les mille et une nuits (لے می اے، اے اُن نُوئی) یعنی وہی ایک ہزار اور ایک راتیں۔ مغربی ادب میں رومانیت (Romanticism) کی تحریک کا آغاز اِسی الف لیلہ کے زیرِاثر ہوا}۔1853 ء میں سر رچرڈ برٹن کی قیادت میں کام کرنے والی ہندو۔ مسلم کمیٹی نے سندھی کے موجودہ رسم الخط کو حتمی شکل دی۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک وضاحت کرتا چلوں۔ سندھی کی شاخوں میں شامل سرائیکی، سرائیکی زبان سے مماثل اور بعض کے نزدیک گویا اُسی کا لہجہ ہے، جبکہ سندھی کی ایک بولی، لاسی بھی ہے جس میں بلوچی کا اختلاط محسوس کیا جاسکتا ہے۔
نثر کی نسبت، اہل سندھ کا اردو زبان واَدب سے اشتراک نظم یعنی شاعری میں زیادہ ہوا جس کا ثبوت قدیم شعرائے اردو کے معاصر سندھی شعراء کا اُردو کلام ہے۔ سندھ کے شعراء فارسی اور سندھی کے ساتھ ساتھ قدیم ہندوستانی /اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور اس باب میں وہ برِعظیم کے دیگر علاقوں سے یکسر مختلف نہ تھے۔ اُن کے یہاں شمالی وجنوبی ہند کے اثرات ملتے ہیں ۔
’’جدید تحقیق کی رو سے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر، قلی قطب شاہ ہے، جس کا زمانہ حکومت 988 ہجری سے 1020ہجری ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب میر فاضل بکھری سندھ میں اردو شاعری کا چراغ روشن کر رہے تھے۔ اس کی شہادت میر فاضل بکھری کے بھائی فرید بکھری کی کتاب ’ذخیرۃ الخوانین‘ سے بھی ملتی ہے۔ ’مقالات الشعرا‘ سندھ کے قدیم شعرا کا تذکرہ ہے۔ اس تذکرے سے ہمیں سندھ کے فارسی شعرا کے اردو کلام کے نمونے بھی ملتے ہیں۔
انہی میں سے سید ضیا الدین ضیا ٹھٹوی بھی ہیں جو ولیؔ دکنی کے عم عصر ہیں۔ ان شہادتوں سے اردو اور سندھ کے لسانی روابط کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ انکشاف جناب جی ایم اصغر نے، اپنے مضمون ’’اردو سندھی کے لسانی روابط‘‘ میں کیا ہے۔ قلی قطب شاہ کا دورِحکومت 988ھ مطابق 1580ء تا 1020ھ مطابق 1612ء رہا۔ وہ 1565ء میں پیدا ہوا اور 1612ء میں فوت ہوا۔ اس طرح تحقیق کا نیا باب روشن ہوگیا ہے۔ موصوف نے کلام بھی نقل کردیا ہوتا تو کم از کم ہمارے لیے آسانی ہوتی۔ جیسا کہ ماقبل بھی کہہ چکا ہوں کہ سندھ کی اُس قدیم اردو شاعری پر بہ یک وقت شمالی وجنوبی ہند، خصوصاً جنوبی یعنی دکن کی بولی ٹھولی کا اثر تھا جو آگے چل کر مثالوں سے واضح ہوگا۔
نمونہ کلام کی دستیابی کے ساتھ، سندھ میں انتہائی قدیم اُردو شاعر غالباً مُلّا عبدالحکیم عطاؔ ٹھٹھوی کو قرار دیا جاسکتا ہے جو 1040ہجری (مطابق 1630 – 1631ء) میں ٹھٹھہ میں پیدا ہوئے۔ عطاؔ کے والد اور بڑے بھائی بھی عالم فاضل شاعر تھے۔
اُن کی شاعری کا آغاز کم وبیش بیس سال کی عمر میں ہوا اور انھیں سندھ کے صوبے دار نواب مظفر خاں (1063ء تا 1069ء) کی سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی (سندھ میں اردو شاعری از عہدِشاہجہاں تا قیام پاکستان، مؤلفہ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کے اس اندراج کے برعکس ، وِکی پیڈیا کہتا ہے کہ عین اُس وقت شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی اور شاہ ِہند، اُس کے والد شاہجہاں تھے)۔ عطاؔ ٹھٹھوی کے کلام میں اُس دور کے سیاسی وسماجی زوال اور خلفشار کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔ اُن کا انتقال 1135ھ (مطابق 1722 – 1723ء ) کے بعد، ٹھٹھہ ہی میں، کسی وقت ہوا جب محمد شاہ رنگیلا حکمراں تھا۔ بقول قانعؔ وہ اپنے آپ کو یکتائے روزگار سمجھتے تھے، جبکہ اُن کا پاک باز اور صوفی ہونا مسَلّم ہے۔ اُن کے مخطوطہ فارسی دیوان ’دیوانِ عطاؔ‘ میں تقریباً نو سو غزلیات، سو کے لگ بھگ رباعیات، ترجیع بند، مخمس، 141اشعار پر مبنی ’ساقی نامہ‘ اور کچھ اردو کلام بھی شامل ہے۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے:
مِری جاں دیکھنا ! پھر دُکھ نہ دینا
کہ محتاج تو کے مفلو ک رہتا
………
کہاں وہ پوچھنا، ہنسنا، کھِلانا
نظر بر مور کی مملوک رہتا
………
جو وَے سدھار جاگ کیا نیند بایلی
صد بار ہارنا، نہ کبھی داؤ جیتنا
…… …
ہُشیار کھیلنا، دُکھ اپنا نہ سوجھنا
سب چھوڑنا نہ مال پرایا سمیٹنا
عطاؔ کے اردو کلام میں ریختہ (دو یا زائد زبانوں کی آمیزش والا کلام) بہت زیادہ ہے۔ وہ فارسی کے پورے پورے مصرع کہہ کر اُس کے ساتھ اردو کے پیوند لگادیتے تھے، نیز عربی کے الفاظ کا بے دریغ استعمال بھی خوب کیا کرتے تھے۔ مثالیں دیکھیے:
عطا ؔ اس بھوک سوں (سے) ہم لوک رہتا (ہم لوگ رہتے: س ا ص)
زِ خوردن ساگ لونی (نمک) سوک رہتا (جیسے ساگ، نمک کھا کر سوکھ جاتا ہے: س اص)
………
عطاؔ خبطا کہاں خاموش رہتا (خبطی: س ا ص)
سخن گر اَز زباں بر گوش رہتا (بات اگر زبان سے کان تک رہتی: س ا ص)
عطاؔ کے فوراً بعد کے شعراء میں ایک قدرے گمنام شاعر میر عزت اللہ تھے جن کے بیٹے میر علی شیر قانعؔ نے بطور شاعر، مؤرخ و تذکرہ نگار شہرت پائی۔ اُن کے مورثِ اعلیٰ شکر اللہ شیرازی، شاہ حسین ارغون کے عہد میں 928ھ (مطابق 1522ء : اندازاً) ہرات (افغانستان) سے ترکِ وطن کرکے ٹھٹھہ تشریف لائے۔ میر عزت اللہ فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ اُن کی وفات 1161ھ (مطابق 1748-49 ء)ہوئی۔ (’’سندھ کے گمنام اردو شعرائے کرام‘‘ از میرزا کاظم رضا بیگ مشمولہ جریدہ ’اظہار‘ بابت جنوری۔ فروری 1991ء)۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اُس وقت سند ھ پر نواب میاں نورمحمد کلہوڑو کی حکومت تھی، جبکہ ہندوستان پر نام نہاد مغل حکمراں احمدشاہ کی عمل داری تھی۔ اُن کا نمونہ کلام بشکل سلام ملاحظہ فرمائیں:
علی اکبر نے جب رونا سُنا قاسم کی مائی کا
پُکارا جان جاتی ہے، جگر جلتا ہے ماتم کا
کرو خاموش عزت اللہ! کہ جان جاتی ہے عالم کی
پڑھو صلوات، شاہاں پر، یہ تحفہ ہے ماتم کا
اس کے بعد ہمیں محوّلہ بالا نگارش میں ایک اور شاعر میرنجم الدین عُزلتؔ کا مختصر ذکر، بلاتاریخ وسن ملتا ہے: عُزلتؔ کے والد کا نام محمد رفیع بکھروی اور چچا کا نام مخدوم محمد معین الدین بیراگی ہے جو اُن کے شاعری میں اُستاد بھی تھے۔ وہ فارسی اور اردو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ نمونہ کلام یہ ہے:
آج جگ میں ہے اندھارا ، واویلا وَا حُسین! (اندھیرا: س ا ص)
رو پُکارے آج زَہراء ، واویلا وَا حُسین
شیخ عبدالسبحان فائزؔ کے متعلق میرزا کاظم بیگ سے معلوم ہوا کہ اُن کے والد کا نام شیخ مرتضیٰ تھا، طبعاً ظریف تھے اور بہ یک وقت فارسی اور اردو شعرگوئی میں رَواں تھے۔ اُن کے متعدد اُردو مرثیے اور سلام، میرزا صاحب کے پاس محفوظ تھے۔ ان کا زمانہ بھی شاید وہی تھا جو عزتؔ اور عُزلت کا تھا، کیونکہ یہاں الگ سے وضاحت نہیں کی گئی۔ ایک سلام کا شعر دیکھیے:
کہے فائزؔ کہ شاہاں! جان میری
تمہاری خاک ِ پا اوپر فِدا ہے
(جاری)۔۔۔۔۔
[ad_2]
Source link