17

موسم گرما میں پانی پلانے کی اہمیت و فضیلت

[ad_1]

ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں،رسول اللہﷺ کی دعا مبارکہ ہے ’’اے اللہ! میرے دل میں اپنی محبت، میری جان اور میرے اہل اور ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ پیاری بنا دے (جامع الترمذی) اس فرمان نبوی ﷺ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے زیادہ کرنے کی دعا کی گئی ہے ۔ جس سے پتہ چلا کہ ٹھنڈا پانی بڑی عظیم نعمت ہے ۔

پانی پلانے کو احادیث مبارکہ میں ’’صدقہ جاریہ‘‘ فرمایا گیا جس کا ثواب مرنے کے بعد انسان کو ملتا رہتا ہے ، نلکا، ٹینکی، کنواں ، ٹیوب ویل وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ناداروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا مرحومین کے ایصال ثواب اور ان کے لئے اجر ِآخرت اور صدقہ جاریہ ہو سکتا ہے ۔ حضرت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا : کہ اے اللہ کے رسول میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور ان کی طرف سے کونسا صدقہ افضل رہے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’پانی کا صدقہ‘‘ چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدوا کر وقف کر دیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کے لئے ہے۔

(سنن ابی داؤد) پانی پلانا بہترین صدقہ بھی ہے ، پیاسوں کی سیرابی کا یہ عمل ایک بہترین صدقہ ہے جس کی ترغیب حدیث مبارکہ میں دی گئی ہے، چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا :آقا کونسا صدقہ افضل ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بہترین صدقہ پانی پلانا ہے ‘‘ کیا تم نے جہنمیوں کے اِس قول کو نہیں سنا جب انہوں نے اہل جنت سے مدد چاہی اور جنتیوں سے کہا ’’ہم پر تھوڑا سا پانی ڈال دو یا کچھ اس چیز میں سے دو جو تمہیں اللہ نے رزق دیا ہے ۔ (سورۃ الاعراف: 50) ۔ ابن ماجہ میں سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جہان پانی کی کثرت ہو اس جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور جہاں پانی کی کثرت نہ ہو (یعنی بمشکل پانی ملے) ایسی جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو ایسا ثواب ملتاہے جیسے مردہ کو زندہ کر دیا‘‘ (سنن ابن ماجہ) ۔ پانی پلانے کا عمل نہایت معمولی ہونے کے باوجود ثواب، اجر آخرت اور رضائے الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔

بروزِ محشر مغفرت وبخشش کا باعث ہوتا ہے ۔ صرف اس عمل کی وجہ سے انسان جہنم سے خلاصی حاصل کر کے جنت کا مستحق ہو سکتا ہے ، اس مضمون کو صحیح بخاری کے اس واقعہ میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی چل رہا تھا اس دوران اسے پیاس لگی وہ ایک کنویں میں اْترا اور اس نے پانی پیا ۔ کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے اس نے کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی مجھے لگی تھی ۔ چنانچہ اس نے موزہ پانی سے بھرا ، پھر اس کو منہ سے پکڑا پھر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول فرمائی اوراس کو بخش دیا ، لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! کیا چوپائے (جانوروں کے ساتھ نیکی اور رحم وکرم کے عمل ) میں بھی ہمارے لئے اجر ہے ، آپﷺ نے فرمایا ’’یعنی ہر تر جگر والے یعنی جاندار میں ثواب ہے (صحیح بخاری)۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا پھل کھلائے گا ۔ اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالیٰ جنت کی شراب پلائے گا ۔‘‘ (سنن ابی داؤد) ۔ امام بیہقی المتوفی 458ھ نے ’’السنن الکبری‘‘ میں ایک روایت نقل کی ہے ۔

ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیں جو مجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے قریب اور جہنم سے دور کر دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم ان دو چیزوں پر عمل کرو گے اس نے عرض کیا: ہاں،آپﷺ نے فرمایا انصاف کی بات کہو اور زائد چیزیں دوسروں کو مرحمت کر د و ۔ اعرابی نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نہ تو انصاف کی بات کر سکتا ہوں اور نہ اپنے مال سے زائد چیز کسی کو دے سکتا ہوں ۔ پھر آپ نے فرمایا کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ۔ اس نے عرض کیا : یہ بھی مشکل ہے ، پھرآپ ﷺ نے فرمایا کیا تیرا اپنا اونٹ ہے اس نے عرض کیا جی ہاں ۔آپﷺ نے فرمایا ! جاؤ اپنا اونٹ اور مشکیزہ لو پھر’’ان لوگوں کے گھر جاؤجن کو کبھی کبھی پانی ملتا ہے اْ ن کو پانی پلاو ٔشاید کہ تمہارا اونٹ ہلاک ہو اور تمہارا مشکیزہ پھٹ جائے اس سے پہلے تمہارے لئے جنت واجب ہو جائے گی‘‘۔ راو ی کہتے ہیں کہ وہ دیہاتی تکبیر کہتا ہوا چلا ۔ کہتے ہیں کہ اس کے مشکیزہ کے پھٹنے اور اونٹ کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہادت حاصل کر چکا۔

(السنن الکبری) نہ صرف انسانوں کی تشنگی کا سامان کرنے پر ہی ثواب ملتا ہے بلکہ کسی پیاسے، سلگتے بلکتے اور پیاس کی شدت سے تڑپتے ہوئے جانور کے لئے پانی پلانے اور سیرابی کا سامان کرنے پر اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے مرض الوصال میں حاضر خدمت ہوا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات پوچھنا شروع کر دئیے حتیٰ کہ میرے پاس سوالات ختم ہو گئے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کچھ اور یاد کرو‘‘ اْن سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یارسول اللہﷺ وہ بھٹکتے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا جب کہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہاں ہر تر جگر رکھنے والے (کے ساتھ رحم وکرم اور نیکی والے عمل) میں اجر وثواب ہے ۔

(مسند احمد) رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کے لئے وعید بھی سنائی ہے جو اپنی ضرورت سے زیادہ پانی کو دوسروں پر خرچ کرنے سے بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا ۔ ایک وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان تجارت فروخت کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت حاصل کر سکے ۔ دوسرا وہ شخص جو نماز عصر کی جھوٹی قسم کھائے تاکہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ لے اور تیسرا وہ شخص جو اپنی ضرورت سے زائد پانی کو لینے سے دوسروں کو روکے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ جس طرح تم نے دنیا میں زائد پانی سے دوسروں کو روکا تھا جب کہ اس میں تمہارے عمل کا کوئی دخل نہیں تھا ، آ ج میں تم کو اپنے فضل سے محروم رکھوں گا اور اپنا فضل تم پر نہیں کروں گا (صحیح بخاری) ۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا : اے سعد ! کیا میں تمہیں ایسا ہلکا صدقہ جس میں بوجھ بالکل کم ہو، نہ بتاوںٔ؟ فرمایا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! فرمایا : ’’پانی پلانا‘‘، چنانچہ حضرت سعدؓ نے پانی پلایا ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث:5247) صاف، میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلانے سے پیاسے انسان کو بہت راحت ملتی ہے، اور یہی پانی تلخی اور پیاس میں بہت عمدہ بھی لگتا ہے ۔

اس لئے پانی پلانے میں اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ جس سے پینے والوں کو راحت بھی ملے اور سخت گرمی میں سکون بھی حاصل ہو ۔ نبی کریمﷺ کو ٹھنڈا پانی پسند تھا ، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : آپ ﷺ کو پینے میں ٹھنڈا اور میٹھا پانی محبوب تھا (ترمذی:1813) اسی لئے آپﷺ کیلئے اس کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں آپﷺ کے لئے بیوت ِ سقیا سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا (ابوداؤد:3248)  اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لئے سعادت ونجات ،بخشش ومعافی کا ذریعہ بنایا ہے ،چنانچہ ان ہی میں سے ایک ’’پانی پلانا‘‘بھی ہے ، جس کے چند فضائل ذکر کئے گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی پلانا جہاں ایک انسانی خدمت ہے ، وہیں انسان کیلئے اجر و ثواب کے حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ناجانے کتنے پیاسے انسان اپنی تشنگی کو بجھا کر اور پیاس کو مٹا کر اس خدمت کرنیوالے کو دعائیں دیتے ہیں اور وہ جن سے متعلق ہو کر اس خدمت کو انجام دیتا ہے اس کی بھلائی کیلئے رب سے التجائیں کرتے ہیں ، انسانوں کی خدمت کر کے ہی انسان قرب ِ خدا وندی کو حاصل کر سکتا ہے اسی لئے ایک مومن کو بالخصوص ایسے موقعوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے جن کے ذریعہ وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکے، اگر وہ براہ ِ راست پیاسوں کو پلا سکتا ہے تو بہت اچھا ہے لیکن اگر اس سے یہ ممکن نہ ہو تو وہ ان لوگوں کا ساتھ دے، ان کی مدد کرے جو اس کارِ خیر کو انجام دیتے ہیں ، اپنے مال کو اس خدمت کے لئے پیش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حصے میں وہ تمام اجر وثواب عطا فرمائیں گے۔

چوں کہ بہت سے کام انسان اپنی خواہش کے باوجود بھی نہیں کر سکتا اپنی دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے ، اس لئے نیکیوں کے انجام دینے میں کم از کم اپنے مال کے ذریعہ اسے اس میں شریک ہونا چاہیے اور کسی بھی کارِ خیر کو انجام دینے میں اس کا حصہ بننا چاہیے۔ بہرحال پیاسوں کو پانی پلانا ، خشک لبوں کی سیرابی کا سامان کرنا ، انسانوں کی پانی کی ضروریات کی تکمیل یہ نہایت اجر وثواب اور بلندی درجات کا باعث ہے ، نہ صرف انسانوں کو پانی پلانا بلکہ پیاسے جانوروں کے لیے پانی کا نظم کرنا بھی ثواب اور اجر آخرت کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کے نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں