13

اس دشت میں اک شہر تھا

بھانت بھانت کے واقعات صادرات، سانحات،حادثات اور پھر ان اخبارات، چینلات، بیانات،اشتہارات کے اظہارات دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اسے کیا کہیے۔

یہ ملک ہے، جنگل ہے ، صحرا ہے، کیا ہے

کوئی قانون ہے، دستور ہے’’مالا‘‘ ہے،کیا ہے

ایک سالم و ثابت ملک دونیم ہوگیا، ایک زرعی، زرخیز اور سونا چاندی اگلنے والی سرزمین بانجھ ہوگئی، ہر ہر لحاظ سے مالا مال،بھرپور اور سرسبز وشاداب ملک بنجر ہوگیا، محتاج ہوگیا ،گداگر ہوگیا، پیٹ میں روٹی نہ جیب میں پیسہ، نہ تن پر کپڑا نہ سر پر چھت، نہ گھر میں روشنی۔ جہاں سب کچھ تھا وہاں کچھ نہیں رہا، نجانے کیسی آندھی آئی کہ سب کچھ اڑا کر لے گئی۔

لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر وقرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے، چور اور ڈاکو پکڑے بھی جاتے ہیں۔حکمران منہ میں جھاگ بھر کر اسے کیفرکردار تک پہنچانے کے نعرے لگاتا ہے۔ عدل و انصاف ننگی تلواریں لے کر اسے دبوچنے لگتا ہے بلکہ دبوچ بھی لیتا ہے، کیفرکردار تک پہنچا بھی دیتا ہے لیکن دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ کیفرکردار کو ضمانت مل گئی ، اگلے دن باعزت رہائی کا اعلان کردیا جاتا ہے اور پھرکوئی جادو کا ڈنڈا ’’تخت وتاج‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ جو ’’سوئے دار‘‘ سے نکلے تو کوئے یار پہنچے۔

چور کو شاہ بنا دے تو کبھی شاہ کو چور

کوئی جادو ہے کہ منتر ہے،’’دعا‘‘ ہے، کیا

مزے کی بات یہ ہے کہ سب کچھ وہی ہوتا ہے، وہی قانون، وہی آئین، وہی دستور، وہی وکیل، وہی بیلک اینڈ وائٹ، وہی دلائل ، وہی شواہد ، وہی ترازو، وہی باٹ لیکن نتیجہ بالکل مختلف بلکہ متضاد بلکہ اُلٹا، جرم بھی موجود ہوتا ہے لیکن مجرم کی اچانک کایا پلٹ ہوجاتی ہے اور وہ کٹہرے سے رتھ پر سوار ہوجاتا ہے۔کہتے ہیں۔

ایک تھانے میں چار لوگوں کو جوا کھیلتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ان میں ایک کسی وزیر کا رشتہ دار نکلا تو اسے چھوڑ دیا گیا۔ دوسرا تھانیدار کا سالا نکلا ، اسے بھی چھوڑ دیا گیا، تیسرے کی جناح صاحب کے تصویر والے نوٹ سے گہرا رشتہ نکل آیا۔وہ بھی چھوڑ دیا گیا، صرف ایک خدا مارا،جو عوام بھی تھا، کالانعام اور تھانے کا بدنام بھی، اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ سرکاری وکیل نے دلائل و شواہد دے کر اسے جدی پشتی اور پکا مجرم ثابت کردیا۔

مجسٹریٹ نے اس سے پوچھا۔تمہارا بیلک اینڈ وائٹ کہاں ہے؟ اس پر ملزم نے کہا، بلیک اینڈ وائٹ کی استطاعت ہوتی تو میں یہاں پہنچتا ہی کیوں؟ میں خود ہی بلیک بھی ہوں اور وائٹ بھی۔مجسٹریٹ نے پوچھا، اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو؟ بولا کچھ زیادہ نہیں صرف اتنا بتادیجیے کہ میں جوا’’کس‘‘ کے ساتھ کھیل رہاتھا؟ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آج کا چور کل کا شاہ اور کل کا شاہ چور کیسے بن جاتا ہے۔

ہماری طرف سے دونوں جائیں بھاڑ میں لیکن مقدمات کے دوران یہ جو کروڑوں روپوں اور اربوں ڈالروں ملین، ٹرلین کا’’مال مسروقہ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے، وہ کہاں چلا جاتا ہے جن دفعات میں’’مجرم‘‘ کو سزا ہوجاتی ہے، وہ قانون کی کس کتاب میں ہوتے ہیں اور جن دفعات کے ذریعے اسے نہلا دھلا کر اور استری کرکے سفید براق بنالیا جاتا ہے وہ ’’کس‘‘ کتاب کے اندر سے نکالے جاتے ہیں؟ وہ جو ایک منتخب وزیراعظم کو جھوٹا، بدیانت اور’’مہاچور‘‘ بنا دیتے ہیں، وہ کون ہوتے ہیں؟ اور جو کسی کو صادق اور امین کا تاج پہنا کر وزیراعظم بنا دیتے ہیں، وہ کون ہوتے ہیں؟ پھر سزا یافتہ اور مہاچوروں کو کلین چٹ دے کر تخت پر بٹھا دیتے ہیں، وہ کون ہوتے ہیں؟ مفرروں اور بھگوڑوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچادیتے ہیں، والی صوبہ بنا دیتے ہیں، وہ کون ہوتے ہیں؟اور سب سے بڑی اور نہ سمجھ میں آنے والی بات یہ کہ یہ سب کچھ عین قانون،انصاف اور عدل کے مطابق ہوتا ہے۔

نام ہونٹوں پہ اتر آئے تو راحت سی ملے

تو تسلی ہے، دلاسہ ہے، دعا ہے کیا ہے

کل کے ’’مہاچوروں‘‘ کو آج مسند پر بٹھا دیا گیا ہے، کوئی بات نہیں۔’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ ۔آج کے مہاچوروں کو بھی قانون کی ڈرائی کلین فیکٹریوں میں صاف و شفاف کرکے پھر مسند پر بٹھا دیا جائے گا۔مردہ باد۔زندہ باد ہوجائیں گے نکاحات و طلاقات کے لیے بھی مسئلے ڈھونڈ لیے جائیں گے۔لیکن جو گھر لوٹا گیا ہے۔گھر کا سب کچھ تباہ کردیا گیا ہے۔ اس گھر کے سارے اثاثے اور اندوختے لوٹ کر مال غنیمت کی طرح تقسیم کیے گئے اور گھر کا مالک، اپنے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے ہمراہ اپنے بھرے پرے گھر کے کھنڈرات پر بھوکا پیاسا اور ننگا ، تپتی دپہروں، اندھیری راتوں میں اور بارشوں سیلابوں کی زد میں بیٹھا رو رہا ہے۔ اس کا کیا ہے، پورا گھرانا مرہی تو جائے گا۔

’’اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا؟‘‘





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں