12

اپنوں کی مخالف حکومت – ایکسپریس اردو

میڈیا کے مطابق حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور آرٹیکل 6 کا معاملہ موخر کردیا ہے کیونکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں ان دونوں معاملات پر غور شامل ہی نہیں تھا، اس لیے اس پر غور ہی نہیں ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کا اداروں کے خلاف پروپیگنڈا ناقابل برداشت ہے اور پی ٹی آئی نے 9 مئی کو ملکی جڑیں ہلانے میں کسر نہیں چھوڑی اور ریاستی اداروں کے خلاف نئی وارداتیں کی جا رہی ہیں مگر ہم ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ریاستی اداروں کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور انھیں سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے یہ ناقابل قبول ہے۔

وزیر اعظم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ حکومت ایسا کرنے والوں سے نمٹے گی یا نہیں یا سختی سے نمٹے گی جیساکہ عام طور پر کہا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ حکومت کے نزدیک ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف حکومت کوئی بھی کارروائی کرے گی یا نہیں؟ اس کا بھی وزیر اعظم نے عندیہ نہیں دیا جس سے ظاہر ہے کہ حکومت اس سلسلے میں صرف بیان بازی ہی کر رہی ہے اور عملی طور پر کچھ کرنا ہی نہیں چاہ رہی جب کہ پی ٹی آئی حکومت میں اداروں کے خلاف باتیں کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کے اعلانات کیے جاتے تھے مگر یہ دعوے اس وقت ہوتے تھے جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی اور فوج پر تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جاتا تھا۔

جب 2021 میںاسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا تو پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کے خلاف مہم شروع کر دی۔ یہ مہم پی ٹی آئی رہنماؤں ہی نہیں بلکہ سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت 9 مئی کے سانحے کے بعد نہ کسی ملزم کو سزا دلا سکی ہے نہ یہ مہم بند کرا سکی ہے جو ملک میں جاری ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور حکومت کے نزدیک اس مہم کو صرف مذمت اور برداشت نہ کیے جانے تک لیا جا رہا ہے، عملی اقدام نہیں ہو رہا نہ ہی حکومت عملی طور پر کچھ کرنا چاہتی ہے۔

سانحہ 9 مئی حکومت کے نزدیک سیاہ دن تھا جس دن ملک میں پہلی بار عسکری املاک پر حملے، شہدائے وطن کی توہین ہوئی اور الٹا الزام بھی متاثرہ فریق پر پی ٹی آئی کی طرف سے لگایا گیا مگر حکومت کو بانی پی ٹی آئی کے خلاف ایک بیانیہ مل گیا جسے حکومت کوشش کے بعد بھی کیش نہ کرا سکی اور جواب 8 فروری کے الیکشن میں مل گیا جس کے بعد بھی حکومتی آنکھیں نہ کھلیں صرف مذمت جاری ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف مہم کے موثر سدباب میں حکومت کی ناکامی اور بعض عدالتی فیصلوں سے متاثرین میں مایوسی ہے اور وہ خود غیر آئینی اقدام سے ضرور دور ہیں اور ان کی حکومت سے توقعات ضرور ہیں مگر حکومت نے مذمت کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ملک میں ایک نہیں کئی حکومتیں چل رہی ہیں۔حکومت کا کام مہنگائی پہ مہنگائی بڑھانا رہ گیا ہے۔

حکومتی ادارے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اور آئینی فیصلے کرنے والے ججز کی ٹرولنگ روکنے میں تو مکمل ناکام یا مجبور ہے مگر جو وی لاگرز، اینکرز درست بات کو درست اور غلط کو غلط کہتے ہیں، ریاستی اداروں کے ملزموں کو گرفتار نہ کرنے پر حکومت پر تنقید اور ریاستی اداروں اور آئین پر فیصلے دینے والوں کی حمایت کرتے ہیں وہ حکومت کو پسند نہیں جس کے ادارے ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے پی ٹی آئی کو مقبولیت مل رہی ہے اور (ن) لیگی حکومت کی مشکلات مزید بڑھتی جا رہی ہیں ۔

سوا دو سالوں میں پی ڈی ایم، نگران اور (ن) لیگی حکومت اصل ملزموں سے مرعوب ہو کر ثبوت کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہیں جس سے وہ دندناتے پھر رہے ہیں اور حکومت اپنوں کی مخالفت میں ہی مصروف ہے۔ متعدد (ن) لیگی رہنما مایوس ہو کر پارٹی چھوڑ گئے۔ سچ کہنے والے ڈر کر خاموش ہیں۔ حکومت سے عوام مایوس، اتحادی ناخوش اور حکومتی حامی پریشان ہیں صرف پی ٹی آئی مطمئن، قیدی نمبر 804 خوش ہے مگر حکومت کر کچھ نہیں رہی صرف مذمتیں کر رہی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں