10

اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے نقصانات

بنوں میں گزشتہ دنوں جو امن جرگہ ہوا‘ اس کی جانب سے کیے گئے مطالبات میں 1) بنوں میں آپریشن کسی صورت میں منظور نہیں۔ (2) ضلع بنوں میں اچھے اور برے طالبان کے قائم مراکزکا مستقل خاتمہ کیا جائے۔ (3) مقامی پولیس کو رات کے وقت بھی گشت کرنے کااور جرائم پیشہ افراد کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اختیار دیا جائے۔ (4) جمعہ خان روڈ عوام کی سہولت کے لیے بحال رکھی جائے۔ (5) علاقے میں طالبان کی پٹرولنگ کا نوٹس لیا جائے، نظر آنے کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو ایکشن لینے کا مکمل اختیار حاصل ہو۔ (6) لاپتہ افراد کو مقامی عدالتوں میں پیش کیا جائے یا ریکارڈ پر لایا جائے۔

(7)مقامی پولیس کے وسائل اور ضروریات کو پورا کیا جائے کیونکہ پولیس صوبائی حکومت کی نمایندہ ہے اور محافظ ہے، لہٰذا پولیس کو بلاتفریق ایکشن لینے کا اختیار دیا جائے۔ (8) CID پولیس کو پوری طرح سے فعال کیا جائے۔ دہشت گرد عناصرکے خلاف ان کو ہر طرح کے وسائل فراہم کیے جائیں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایکشن کا اختیار دیا جائے۔ (9)مدارس،گھروں پر بلاجواز چھاپے نہ مارے جائیں تاکہ عوام میں اشتعال انگریزی اور بے چینی نہ پائی جائے۔ (10) طالبان کے خلاف آپریشن میں CID کو مقامی سطح پر مکمل اختیار دیا جائے بغیر کسی روک ٹوک اور دباؤ کے اور (11) دہشت گردی میں زخمی پولیس اہلکاروں کا علاج CMH میں کیا جائے، شامل ہیں۔

امن جرگہ بنوں کے تاجروں کے نمایندوں، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، بنوں کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ امن جرگہ علاقے میں مسلسل دہشت گردی، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی مسلسل بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد منعقد ہوا ہے۔ جرگہ کی متفقہ رائے ہے کہ اب خیبر پختون خوا کسی مزید عسکری آپریشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

گزشتہ دنوں امن کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں افراد جرگہ کی اپیل پر جمع ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جرگہ میں شریک بعض شرپسند عناصر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تصادم میں چند ہلاکتیں بھی ہوئیں‘ جس کے بعد کئی دنوں تک احتجاج جاری رہا، اگرچہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے ہلاکتوں کے بارے میں ایک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے شرپسند عناصر اس فائرنگ میں ملوث تھے۔ اس بناء پرخیبرپختونخوا حکومت کے ہوتے ہوئے غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات ممکن نہیں ہیں ، مگر اب معاملہ پختون خوا کی ایپکس کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔

ایپکس کمیٹی میں گورنرکے پی،کورکمانڈر، غیر سرکاری اور عسکری ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایپکس کمیٹی نے جرگہ کے مطالبات کو تسلیم کیا اور یہ وضاحت کی گئی کہ کے پی میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوا، صرف دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ امن جرگہ صرف بنوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر علاقوں میں بھی ہوئے ہیں اور یہ تمام جرگے اچھے طالبان کی واپسی،پولیس کو زیادہ اختیارات دینے اور اچھے طالبان کی متوازی حکومتوں کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاریخ پر نظر رکھی جائے تو واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان، مالاکنڈ، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر علاقوں میں عام لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف اسی طرح کے مزاحمتی طریقہ کارکو اختیارکیا لیکن اسلام آباد کی حکومت نے ان مزاحمتی تحریکوں کے مطالبات کو اہمیت نہیں دی۔ ایک اور حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی سابقہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے طالبان کے کابل پر قبضہ کو بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے طالبان حکومت سے مذاکرات کیے اور اچھے طالبان کے نام پر انھیں سابقہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دیدی۔ امریکی ریڈیوکے لیے کام کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے طالبان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا نہ ان کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے کونسلنگ سینٹر قائم کیے گئے۔ یہ لوگ ڈبل کیبن اور جدید گاڑیوں میں جدید اسلحے کے ساتھ آئے اور انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں متوازی حکومتیں قائم کرلیں، یہ طالبان اپنی عدالتیں لگاتے ہیں۔ ان عدالتوں میں طالبان کی اپنی من مانی کو شریعت کا نام دے کر فیصلے کرتے ہیں۔

یہ طالبان ہیر ڈریسرز کی دکانیں بند کراتے ہیں۔ خواتین کا تعلیم حاصل کرنا، ملازمت یا کاروبارکرنا ممنوع ہے۔ یہ لوگ پولیوکے قطرے پلانے کی مہم کو پسند نہیں کرتے۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ رات 8 بجے کے بعد سیکیورٹی چوکیوں پر تعینات سیکیورٹی اہلکار واپس چلے جاتے ہیں اور پورے علاقے پر تحریک طالبان پاکستان کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے مخالفین کو اغواء کرتے ہیں اور تاوان ادا کرنے پر چھوڑتے ہیں۔ ان لوگوں کا محبوب مشغلہ طالبات کے اسکولوں کو مسمارکرنا ہے مگر اس پورے معاملے میں پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بڑی ڈھٹائی سے امن جرگہ کے مطالبات کی حمایت توکررہے ہیں مگر انتظامی طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دیتے اور نہ بات کا اقرار نہیں کرتے کہ اچھے طالبان کی آبادکاری ان کی سابقہ حکومت کا ہی کارنامہ ہے۔ وزیر اعلیٰ یہ بھی نہیں کہتے کہ تحریک انصاف کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ یوں صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نے 1977 کی افغانستان کی تمام مزاحمتی تحریکوں کی مدد کی تھی۔ جرمنی میں افغان نوجوانوں نے پاکستان کے قونصل خانے پر حملہ کر کے اور قومی پرچم کو نذرِ آتش کر کے گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے حلیفوں نے امریکا کی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شرکت کے تحت افغان مجاہدین کو گوریلا جنگ کی تربیت دی۔ دنیا بھر سے مسلمان جنگجوؤں کو پشاور اورکوئٹہ میں جمع کیا گیا اور پھر امریکا، یورپی اتحادی ممالک اور سعودی عرب سے آنے والے اربوں ڈالروں سے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء مستفید ہوئے۔ مذہبی جماعتیں بھی اب پروجیکٹ میں شامل ہوگئیں۔ بے نظیر بھٹوکے دوسرے دورِ اقتدار میں نصیر اللہ بابر نے منظم قوت میں تبدیل کیا۔

پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل پر حملہ کیا تو پرویز مشرف حکومت امریکی کیمپ میں چلی گئی۔ اس دو رخی پالیسی کے بہت نقصانات ہوئے۔

کے پی اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور افغانستان میں پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے خیالات کی بنیادی وجہ اسٹرٹیجک ڈیپتھ (Strategic Depth)کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے افغانستان کے عوام ہم سے دور ہوگئے اور یہ خطہ مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے،اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس پالیسی کو ترک کردیا گیا ہے مگر اس بارے میں عملی اقدامات ظاہر ہونے چاہئیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں