17

حسرت ان پھولوں پر – ایکسپریس اردو

[ad_1]

اصل شعر میں تو حسرت کااظہار ان غنچوں پر کیا گیا ہے جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں لیکن ہم ان پھولوں پر حسرت کااظہار کررہے ہیں بلکہ نوحہ پڑھ رہے ہیں جودو دن ’’بہارجان فزا‘‘ دکھلا کرنہ جانے کہاں کہاں بکھر کررزق خاک ہوجاتے ہیں ۔

اصل میں تو یہ شعر قبرستانوں کے لیے رجسٹر ہوچکا ہے لیکن قبرستان صرف وہ ہی تو نہیں ہوتے ہیں جہاں ’’مردے‘‘ گاڑے جاتے ہیں بلکہ اور بھی بہت سارے قبرستان ہیں جہاں ’’مردے‘‘ دفن نہیں ہوتے بلکہ اپنی لاشیں خود ہی اپنے کاندھوں پر اٹھائے لیے پھرتے ہیں

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا

اپنی ہی لاش کاخود مزار آدمی

ایسے قبرستانوں میں ایک قبرستان سیاست بھی ہے جس میں ایسے دوچار سیاسی قبرستان بھی ہوتے ہیں جو مرجع خلائق ہوتے ہیں اوران کے مجاور بڑے صاحب کمال بزرگ ہوتے ہیں کہ اپنی ریاضتوں سے خود بھی جنت اورحوروقصورحاصل کرلیتے ہیں اورپیچھے لواحقین کے لیے بھی ٹکسال اورگنج گرانمایہ چھوڑ جاتے ہیں ان سیاسی مزارات میں بھی جھنڈے ہوتے ہیں ، دیے جلائے جاتے ہیں، عرس شریف ہوتے ہیں لنگر اورچراغ ہوتے ہیں چراغوں پر ایک بے موقع شعریاد آیا

بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والوں

کرہ ارض کے بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

ان سیاسی قبرستانوں میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو قبرستانوں کو قبرستان بناتی ہیں یعنی کچھ بے نام اورشکستہ قبریں اورکچھ قبروں پر سوکھے ہوئے پھول اوراکثر قبروں پروہی مخصوص اوررجسٹرڈ شعر۔ جن میں ایسی قبریں بھی ہوتی ہیں جن پر وفات بعمر اسی نوے سال لکھا ہوتا ہے ۔ یہاں پرہمیں پیرومرشد کا شعر یاد آیا کہ

سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں

مرشد نے تو یہ شعر قبرستانوں کے لیے لکھا تھا جو مشہورعالم ہے ، کیوں کہ اس زمانے میں ابھی سیاسی قبرستانوں کا رواج نہیں چلاتھا چنانچہ ہم نے اس شعر کو تھوڑا سااپ ٹوڈیٹ کرلیا ہے

سب کہاں کچھ ’’نالہ وپل‘‘ میں نمایاں ہوگئیں

’’فنڈز‘‘ کی کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں

خیر ’’فنڈز‘‘ کا کوئی مسئلہ نہیں، خدا دورجدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی عرف آئی ایم ایف کو سلامت رکھے اورساتھ ہی ہمارے وطن کی خصوصی پیداوار کالانعام بھی جو بیک وقت دودھ بھی دیتے ہیں اورانڈے بھی ۔ جن کا اون بھی اترتا ہے اور کھالیں بھی اوریہ دونوں پھر سے اگتی بھی رہتی ہیں اوراس کے علاوہ تیل کے کنوئیں بھی ہیں۔

ہم بات ان پھولوں کی کرنا چاہتے ہیں جو دودن بہار جان فزا دکھلا کر قبرستان میں نہ جانے کہاں اورکس قبر میں عدم پتہ ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ خود ان کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہم کہاں عدم پتہ ہوگئے ہیں۔اکثر گائے پھرتے ہیں کہ ’’میں کون ہوں میں کہاں ہوں‘‘ مجھے یہ ہوش نہیں

میں اپنی لاش اٹھائے یہاںچلا آیا

خبر نہیں کہ کہاں سے کہاں چلا آیا

یہ کیاجگہ ہے کہاں ہوں مجھے یہ ہوش نہیں

وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسے پھولوں کی اچانک اپنے عروج میں کھلھلاتے ہوئے ’’موت‘‘ واقع ہوجاتی ہے اوریہ تو دنیا کو معلوم نہیں کہ وزیر کی ماں کے جنازے میں ڈیڑھ سو صفیں ہوتی ہیں جب کہ خود اس کے جنازے میں ڈیڑھ صف بھی نہیں ہوتی پھر اپنا نوحہ خود ہی پڑھتے ہوئے روتا ہے

مجھے نہ ہاتھ لگاؤ کہ مرچکا ہوں میں

خود اپنے ہاتھ سے یہ خون کرچکا ہوں میں

کہاں نہیں ہوں کہاں ہوں مجھے یہ ہوش نہیں

ایسے زندہ مردے تو اس قبرستان میں بے شمار تھے اورہیں لیکن ہمیں جن سے بے پناہ ہمدردی ہے ان میں ایک نام تو اس محترمہ کاہے جو معاونہ یا مشیرہ بنیں تو کسی بھی چراغ میں روشنی نام کو نہیں رہی اورہرطرف صرف ایک نام گرجتا تھا گویا

اگر فردوس برروئے زمیں است

ہمیں است وہمیں است وہمیں است

بچاری کو نہ جانے کیا ہوا کہ چٹ پٹ ہوگئی اورخود ہی اپنی میت کا مزار بن گئی

خزاں میں اڑتے پتوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی

اسی سے ملتا جلتا ہے دل برباد کاموسم

سمندر ہومگر لہریں نہ ہوں اک ہوکاعالم ہو

یہی تو ہے ’’سیاست‘‘ کسی ناشاد کاموسم

ایسے ہی ایک اوربن کھلے یاادھ کھلے پھول کاسلسلہ تو اوربھی زیادہ الم ناک ہے ، یہ پھول وزیرستان میں بہت تیزی سے کھلاتھا بلکہ کھلکھلایا تھا، اندازہ تھا کہ یہ پھول بہت جلد ہی گل سرسبد ہوجائے گا لیکن افسوس کہ

ہرپھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی

یہ پھول جو نام کابھی ’’پھول‘‘ تھا بلکہ پھولوں کا پھول کہیے کہ اورپھول بھی ایسا کہ نام لیتے ہی منہ میں خوشبو دار بتاشے گھلنے لگتے تھے اکثر گیتوں اورنغموں میں بھی یہ نام ذکر ہوتا ہے، افغانستان کے مشہور فن کاروں نے اپنے گانوں میں ذکر کیا ہے ، لیجنڈ گائیک ناشناس کا ایک گانا ہے

گودر تہ مہ زہ زرزری شال دے لمدیگی

گلالئی بج شمال لکیگی

یعنی پنگھٹ پر مت جاؤ تیرا زرین شال بھیگ جائے گا ، اے گلالئی بہت ٹھنڈی شمالی ہوائیں چل رہی ہیں

لیکن گلالئی نہیں مانی کہ اسے اپنے حسن وجوانی پر بڑا مان تھا اور رہی ہوا جو ناشناس نے کہا تھا اس کا ’’زرزری شال‘‘ بھیگ گیا اوربچاری سردی کے مارے سکڑ سمٹ کر رہ گئی جس پر اہل درد کو بڑادکھ ہوا

ان پہ طوفان کو بھی افسوس ہوا کرتا ہے

وہ سفینے جو کناروں پہ الٹ جاتے ہیں

اصلی قبرستان کی طرح یہ سیاسی قبرستان بھی بڑا ’’بے درد‘‘ ہوتا ہے ،لوگ بڑے آرام سے اپنے پیاروں کو یوں دفن کردیتے ہیں جیسے ان کاکوئی وجود ہی نہ ہو اورکبھی ان کو یاد بھی نہیں کرتے کہ اس دشت میں ایک شہرتھا وہ کیا ہوا آوارگی‘ اس پر ایک بہت ہی خوبصورت پشتو ٹپہ بھی ہے کہ

زمکے قلنگ دے زورآوردے

زلمی ترے اخلے رالیگے تش پالنگونہ

یعنی اے زمین تیرا خراج بہت سخت ہے، جوان لے لیتی ہو اور’’خالی پلنگ‘‘ بھیج دیتی ہو لیکن سیاسی قبرستان میں تو پلنگ بھی واپس نہیں لیے جاتے کہ اس میں نہ تو مرنے والوں کو پلنگ پر لایا جاتا ہے اور نہ مٹی انھیں لیتی ہے کہ وہ برسرزمین رہ کر اپنی لاشیں خود ہی ڈھوئے ہوئے رہتے ہیں کہ یہاں اکثر زندے دفن ہوجاتے ہیں اور مردے اٹھ کر زندوں کے کاندھوں پر سوار ہوجاتے ہیں اور پھر ’’پیر تسمہ پا‘‘ بن جاتے ہیں

صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں