[ad_1]
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کردیا گیا، ان کی بہن سمیت خاندان کے 13 افراد شہید کردینے کی اطلاع کے بعد فلسطین کے مقبوضہ علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ دوسری جانب 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار ہوگئی ہے۔
موجودہ صورتحال انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی اور علاقائی اداروں اور عالمی قیادتوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے، اگر اسرائیلی جنونیت کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کی اتھارٹی تسلیم نہ کی گئی تو پھر تیسری عالمی جنگ کی راہ ہی ہموار ہوگی جو اس پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے۔ درحقیقت دنیا میں رہنے کے کچھ رہنما اصول ہیں جن کو مہذب قومیں مانتی ہیں لیکن پچھتر برس سے جاری اسرائیل کے مظالم کم ہونے کے بجائے انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی آڑ میں اسرائیل اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کا بے دردی سے قتلِ عام کیے جا رہا ہے۔ اور اسرائیل کے ارادے تو گزشتہ برس سے ہی اس کے حکومتی نمایندوں کی تقریروں سے عیاں تھے۔ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں انسانیت کا بھی امتحان ہے اور دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بن چکا ہے جس کی مذمت نہ صرف مسلمان بلکہ ہر رنگ نسل مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان میں یہودی بھی شامل ہیں جو اسرائیلی صیہونی مملکت کے خلاف ہیں اور ان کو یہودیت سے بالکل الگ سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے حالیہ مظالم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ہر طرف سے فری فلسطین اور فلسطین ول بی فری کے نعروں کی گونج آ رہی ہے۔
انسانی حقوق کے تمام اداروں بشمول اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں جیسے کہ عالمی ادارہ برائے صحت کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری ہے، اسرائیل اپنے معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی بربریت کی انتہا ہے کہ غزہ میں شہری آبادی والے علاقوں، اسکولوں،مساجد، تعمیرات، پانی کے ذخائر حتیٰ کہ اسپتالوں کے اوپر حملے کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہے۔ اسرائیلی درندگی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلح یہودی آباد کاروں نے بھی فلسطینی شہریوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا ہے کہ سفید فاسفورس کا استعمال کر کے اسرائیل بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
دھماکوں، میزائل حملوں کا شور، زخموں سے چور درد سے کراہتے بچے، خواتین، مرد، ملبے میں دبے افراد کی آہ و بکا، بچوں کے بے جان جسم اٹھائے اللہ کو پکارتے بے بس ماں باپ، والدین کی لاشوں کو دیکھ کر غم سے چیختے بچے، ہر طرف خون ہی خون، بکھرے ہوئے جسمانی اعضاء موت کا سایہ، یہ سب منظر نامہ کسی خوفناک فلم کا یا کوئی بھیانک خواب نہیں بلکہ اسی دنیا میں یہ ان دنوں فلسطین میں بیت رہی ایک حقیقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر فلسطین، غزہ میں جاری اسرائیلی سفاکی، قتل و غارت، فلسطینیوں کی نسل کشی کو وڈیوز کے ذریعے وہاں موجود بہادر اور دل گردہ رکھنے والے افراد، جن میں صحافی بھی شامل ہیں، دنیا کو انسانی حقوق کی ہر طرح سے ہونے والی پامالی نہ دکھاتے تو شاید صیہونی ریاست اسرائیل اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہتا۔
عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1947 میں اپنی قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی۔ نہ صرف یہ بلکہ امریکی دباؤ میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس قرارداد کو مسترد کردیا اور آج تک وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
یورپ اور امریکا نے اسرائیل اور یہودیوں کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کردیا جب کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے بھی انھیں بے دخل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا ساتھ دیا۔ فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا، مگر عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی صرف بے حسی ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں ان کی جانبداری بھی جاری ہے۔ اسی جانبداری کی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی اسرائیل نے پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔ اسلامی ممالک کی جانب سے فلسطین کی اخلاقی حمایت بیانات تک ہی محدود ہے۔ یہ سفارتی، سیاسی اور معاشی حمایت میں آخر کب تبدیل ہوگی؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ بیشتر مسلمان ممالک امریکا، آئی ایم ایف وغیرہ پر انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ممالک کس طرح امریکا یا اسرائیل سے اپنی بات منوا سکتے ہیں؟ انسانیت کی اس سے زیادہ تحقیر و تذلیل اور انسانی برادری کی اس سے زیادہ بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی، پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب کی مذمتی قراردادوں، دنیا بھر بشمول اسرائیل اور امریکا میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور ان پر جاری اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے جلوس اور ریلیاں نکالنے کے باوجود اسرائیل کا وحشی سفاک ہاتھ نہیں روکا جا سکا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے چار قراردادیں پیش ہوئیں جنھیں امریکا نے ویٹو کیا جب کہ یو این جنرل اسمبلی نے اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطین کو بطور آزاد و خود مختار ریاست تسلیم کرنے کی قرارداد بھی منظور کی۔ اب تک دنیا کے 143 ممالک فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں اس کے باوجود امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کی ننگ انسانیت کارروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان کارروائیوں کے خلاف ہی عالمی عدالت انصاف نے چند ماہ قبل اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جب کہ اب عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو دوٹوک الفاظ میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا اسرائیل سے قبضہ چھڑانے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کریں۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔
[ad_2]
Source link