[ad_1]
گذشتہ روز ایران میں شہید کیے جانے والے ممتاز فلسطینی حریت پسند راہ نما اسمٰعیل ہنیہ ایک طویل عرصے سے خلیجی ملک قطر میں رہائش پذیر تھے، وہ ایک مُدت سے ’غزہ کی پٹی‘ کا دورہ بھی نہیں کرسکے تھے۔
گذشتہ روز خصوصی طور پر نومنتخب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر تہران پہنچے تھے، جہاں انھیں ان کی رہائش گاہ پر نہایت پراسرار طریقے سے قتل کردیا گیا! تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدید کشیدگی اور اسرائیل کی جانب سے شدید برہمی کے باوجود انھیں قطر میں محفوظ جائے پناہ حاصل تھی۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کے لیے انھیں قطر میں نشانہ بنانا بالکل بھی ممکن نہیں تھا، لہٰذا انھیں تہران میں ہدف بنایا گیا۔
ایران میں ہونے والے حملے کی نوعیت سے متعلق ان سطور کے لکھے جانے تک خاطر خواہ وضاحت نہیں مل سکی ہے کہ آیا انھیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا، یا کسی قسم کے راکٹ یا میزائل کا استعمال کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ بوجوہ تفصیلات منظر عام پر لانے سے گریز کیا جا رہا ہو، کیوں کہ یہ عالمی سطح پر ایران کے لیے ایک نہایت مشکل صورت حال ہے کہ اس کا ایک خصوصی مہمان اس کے ملک کی حدود میں اپنی جان سے گزر گیا۔۔۔!
اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی حملوں کے بعد سے تاحال یہ محاذ سرد نہیں ہو سکا تھا اور عالمی برادری کے دباؤ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود صیہونی وار کسی قابو میں نہیں آ رہے۔ عرب اور مسلمان دنیا کی روایتی بیان بازیوں میں اس بار کوئی چارہ جوئی بھی دکھائی نہیں دیتی تھی، ایسے میں ’حماس‘ گویا تنِ تنہا اپنی مزاحمتی اور دفاعی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیلی وحشت کبھی فلسطینی زخمیوں کو نشانہ بناتی ہے تو کبھی وہاں کے اسپتالوں پر بم برسانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔۔۔ کبھی خواتین اور بچوں کا خون کرتی ہے، تو کبھی تلخ سچائیاں دنیا کو دکھانے والے دنیا بھر کے صحافیوں کو روند دیتی ہے۔
اس کا نشانہ اپنی زمین پر اجنبی بن جانے والے اور اپنی دھرتی کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے مظلوم فلسطینی ہیں، جس کا ’’مرکزی ملزم‘‘ یہی اسمٰعیل ہنیہ تھا، لیکن اسے خلیج کے ایک بُردبار اور مسلم دنیا کے لیے ایک خاموش اور پروقار کردار ادا کرنے والے ملک قطر نے پناہ دے رکھی تھی، یہ قطر کی کام یاب خارجہ حکمت عملی تھی کہ وہ دیگر بزعم خود ’عرب قائدین‘ اور ’مسلم راہ بروں‘ کے مقابلے میں اپنا ایک متوازن کردار ادا کر کے فلسطین کے محاذ کو سرد کرنے کے لیے براہ راست اور پس پشت ہر دو طرح کی کوششوں میں مصروف ہے اور ساتھ میں اس نے اسرائیل کے نشانے پر موجود اسمٰعیل ہنیہ کو بھی نہایت کام یابی سے پناہ دے رکھی تھی، لیکن برا ہو کہ اسمٰعیل ہنیہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے اور قطر کی محفوظ حصار سے باہر نکل آئے اور ان کا سفاک دشمن تو گویا اسی تاک میں تھا، لہٰذا اس نے انھیں شہید کرڈالا۔
اسمٰعیل ہنیہ فلسطینی حریت پسند گروپ ’حماس‘ کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔ ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر راہ نماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔
62 سالہ اسمٰعیل ہنیہ کو 2017ء میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی حیرت انگیز کام یابی کے بعد فلسطینی اتھارٹی میں جب انھوں نے حکومت کی صدارت سنبھالی تھی تو ان کا نام اور ان کا عرفیت ابو العبد 2006ء سے ہی دنیا کو معلوم تھا۔
اسمٰعیل ہنیہ 8 مئی 1963ء کو غزہ شہر کے مغرب میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کو 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مقبوضہ فلسطین کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے وہ اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔ 1987ء میں انھوں نے گریجویشن کیا۔ اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت بھی شروع ہوگئی۔
جس کے فوراً بعد انھیں اسرائیل نے انھیں گرفتار کر لیا تھا، کیوں کہ وہ مختلف احتجاجی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے، انھیں چھے ماہ کے لیے اسیر رکھا گیا۔ اس کے بعد 1989ء میں اسرائیل نے تین سال کے لیے انھیں قید کیا اور پھر انھیں حماس کے سینیر راہ نماؤں عبدالعزیز الرنتیسی اور محمود الزہر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ ’لبنان اسرائیلی سرحد‘ پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا۔ جہاں ان کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ یہاں انھوں نے 1992ء میں ایک پورا ایک سال جلاوطنی میں گزارا۔
اسمٰعیل ہنیہ دسمبر 1993ء میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ’ڈین‘ مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے 1997ء میں حماس سربراہ شیخ احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا، جس کے بعد اسمٰعیل ہنیہ کو ان کا معاون اور ان کے دفتر کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔
حماس کے سربراہ شیخ احمد یٰسین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسمٰعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندہ بن گئے۔ ستمبر 2003ء میں اسمٰعیل ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے تھے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے، لیکن اس کے محض چھے ماہ بعد شیخ احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر حملے کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔
16 فروری 2006ء میں حماس نے انھیں فلسطین کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے نام زَد کیا اور 20 فروری 2006ء کو انھوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ 2006ء ہی میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیراعظم اسمٰعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے، لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انھیں برطرف کردیا، جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اسمٰعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ بعد میں اسمٰعیل ہنیہ نے ’الفتح‘ کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا۔ چھے مئی 2017ء کو اسماعیل ہنیہ کو ’حماس‘ کی شوریٰ نے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا۔
اگرچہ محمود الزہر کو اس وقت حماس کا سب سے سینیر راہ نما سمجھا جاتا تھا، لیکن اسمٰعیل ہنیہ کو 15 جنوری 2024ء کے انتخابات میں حماس کی مہم کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا جس میں تحریک کے امیدواروں نے فلسطینی قانون ساز کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کی تھیں۔
اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس سے نئی حکومت بنانے کو کہا، تاہم حکم راں ’الفتح تحریک‘ اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے ہفتوں کی بات چیت ناکام ہوگئی اور اسمٰعیل ہنیہ کو بنیادی طور پر اپنی ٹیم اور کئی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔
جب اسمٰعیل ہنیہ نے اپنی انتظامیہ کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا، تو انھوں نے امریکا اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں کمی کی دھمکیوں پر عمل نہ کریں۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینیوں کو آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ 2018ء میں امریکا نے فلسطینی اسلامی تحریک حماس کے سیاسی راہ نما کو دہشت گرد قرار دیا اور ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا کہ اسمٰعیل ہنیہ کے ’حماس کے عسکری ونگ سے قریبی تعلقات ہیں‘ اور وہ ’شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔‘
اسمٰعیل ہنیہ نے اپنی کزن امل ہنیہ سے اس وقت شادی کی جب وہ سولہ سال کی تھیں، ان کے 13 بچے ہیں، جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے عبدالسلام کی عمر 43 سال ہے۔ ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے اور چار پوتے، پوتیاں 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی پر عیدالفطر کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ’حماس‘ کی جانب سے ان کے نام جاری کیے گئے، جن میں مونا، امل، خالد اور رازان شامل تھے۔ ’حماس‘ سے منسلک میڈیا کے مطابق اسمٰعیل ہنیہ کے بیٹے ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے جب غزہ کی پٹی میں الشاتی کیمپ کے قریب انھیں نشانہ بنایا گیا۔ اسمٰعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسمٰعیل ہنیہ کے بیٹے حماس کے عسکری ونگ کے اراکین تھے۔
اسمٰعیل ہنیہ اپنے پیش رو شیخ احمد یٰسین اور عبدالعزیز الرنتیسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے، اسرائیل کی جانب سے اس حملے پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن ’حماس‘ اور ایران نے اس قتل کا الزام اسرائیل ہی پر عائد کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ارض فلسطین کی آزادی کی جدوجہد اب کس طور پر آگے بڑھتی ہے اور کب مقبوضہ فلسطین کے باسی آزاد فلسطین کے پرچم تلے اپنی آزادی کے بنیادی حق کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔
اسماعیل ہنیہ
مَیں اسماعیل ہوں
لیکن مَیں ایسے دَور کا اسماعیل ہوں
جب ابراہیم نے خواب دیکھنا بند کردیے ہیں
اور اسماعیل کو اپنے خواب خود دیکھنا پڑتے ہیں
مَیں اسماعیل ہوں
لیکن میری ماں مکہ کے صحرا کے بجائے غزہ کے صحرا میں تڑپتی ہے
مجھے حرمِ مکہ کے بجائے حرمِ آزادی کے لیے چنا گیا ہے
میری قربانی کے لیے ’ابراہیم‘ کو کنعان نہیں چھوڑنا پڑا
مَیں اسماعیل ہوں
جسے اپنے اہل و عیال، اپنے دیوار و در، اپنے گھربار
سب کو میدانِ جنگ میں لانا پڑا
اپنے بچوں اور پوتوں، پوتیوں کی قربانی دینا پڑی ہے
مَیں اسماعیل ہوں
جو غزہ کے لاچار اور بے بس باشندوں کی زندگی کے لیے
خود اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے
مَیں اسماعیل ہوں
جس کے عوض مینڈھا نہیں آیا
ہاں، ہاں! وہ بھی اسماعیل تھا
جو ہزاروں برس قبل کنعان میں پیدا ہوا تھا
مَیں بھی اسماعیل ہوں
مَیں بھی کنعان میں پیدا ہوا ہُوں
صدیوں پر محیط کنعان کی تاریخ ایک ہی لفظ پر مشتمل ہے
’اسماعیل‘
کبھی مینڈھے کے عوض جان بچ جاتی ہے
اور کبھی تین چار نسلوں سمیت قربانی دینی پڑتی ہے
(خالد ندیم)
[ad_2]
Source link