12

ڈی چوک، ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی کا معاملہ؛ ڈی سی اسلام آباد و وزرات داخلہ کو نوٹس

[ad_1]

 اسلام آباد: ڈی چوک اور ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی لگانے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی سی اسلام آباد اور وزرات داخلہ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے جامع پلان طلب کر دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے فیڈرل ویلفیئر ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی۔ فیڈرل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے وکیل چوہدری وسیم بہادر عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جب بھی ڈی چوک میں کوئی دھرنا یا احتجاج ہوتا ہے تو کاروبار بند کر دیے جاتے ہیں، استدعا ہے احتجاج پر پابندی عائد کی جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ سارے کاروبار بند نہیں ہوتے، کچھ مقامات کو بند کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حل ہے اس کا؟ کیا ڈی چوک ریڈ زون ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اس سے بچنے کے لیے اسلام آباد میں 144 نافذ ہے اور ڈی چوک سے ریڈ زون شروع ہوتا ہے۔

ڈی سی اسلام آباد سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب کوئی دھرنا ہوتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں۔ ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ اگر پریس کلب میں کوئی احتجاج ہوتا ہے ہم سائڈ کے روڈز بند کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ڈی چوک کا ہے، اس پر بتائیں، جس پر ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ ریڈ زون میں کوئی دھرنا نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر آپ روکتے کیوں نہیں، مانا احتجاج کا حق ہر شہری کو ہے مگر ریڈ زون میں داخلہ محدود ہے، ہر کوئی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرتا ہے، لاہور کا ریڈ زون مال روڈ ہے وہاں بھی روز احتجاج ہوتا ہے۔

ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ اجازت کے بغیر لوگ آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی سی اسلام آباد استفسار کیا کہ اگر آپ سے اجازت نہیں لی جاتی تو پھر آپ ریڈ زون کو ریڈ زون نہ کہیں۔ ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ ڈی چوک پارلیمنٹ والا چوک ہے، جہاں پچھلے دھرنے میں گاڑی سے بندے مرے تھے، ایکسپریس وے والا چوک ڈی چوک نہیں۔

چیف جسٹس نے ڈی سی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ میں آپ کو نوٹس کر دیتا ہوں آپ نے کہا تھا پریڈ گراؤنڈ میں احتجاج کر سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ہم نے مشورہ دیا تھا سیکٹر ایریا کو ریڈ زون ڈیکلیئر کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ڈی سی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے بتانا ہے کس جگہ احتجاج کی اجازت ہے یا نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں