9

پنجاب؛ معاوضے کی پالیسی سے غیر قانونی شکار کے واقعات بڑھنے لگے

 لاہور: جنگلی جانوروں اور پرندوں کے غیرقانونی شکار سے متعلق جرمانوں اور سزاؤں کی کمزور پالیسی کی وجہ سے غیرقانونی شکار کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ غیرقانونی شکار کرنے والے پکڑے جانے کی صورت میں محکمانہ معاوضہ ادا کرکے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ غریب شکاریوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ پنجاب وائلڈ لائف کے عملے نے چولستان پروٹیکشن ایریا میں چنکارہ ہرنوں کا شکار کرنے والے پانچ ملزمان کو گرفتار کیا، ملزمان کے قبضے سے چار ذبیع شدہ چنکارہ ہرن برآمد کیے اور پھر ملزمان کی درخواست پر ان سے 8 لاکھ روپے محکمانہ معاوضہ وصول کرکے چھوڑ دیا۔ اسی طرح جہلم میں ایک پرندہ شاپ سے تحفظ شدہ کالے تیتر اور چکور برآمد کیے گئے لیکن دکاندار کی درخواست پر اسے 28 ہزار روپے محکمانہ معاوضہ کیا گیا۔

ترجمان پنجاب وائلڈ لائف کے مطابق مارچ کے آخری عشرے سے جاری وائلڈ لائف کومبنگ آپریشن کے دوران تحفظ شدہ 70 جنگلی جانور، 8749 جنگلی پرندے اور 230 خزندے برآمد ہوئے جبکہ خلاف ورزی کے مرتکب 278افراد کے چالان کرکے انہیں 56لاکھ 79ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔

پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیڈکوارٹرز خواجہ جنید نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 (ترمیم شدہ 2007) میں مختلف جنگلی جانوروں اور پرندوں کے قانونی شکار کے لیے لائسنس فیس جبکہ غیرقانونی شکار پر جرمانوں کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غیرقانونی شکار میں پکڑے جانے والے 70 فیصد شکاری محکمانہ معاوضہ ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ 30 فیصد ایسے ہیں جن کے کیس عدالت میں بھیجے جاتے ہیں۔

خواجہ جنید نے بتایا کہ غیرقانونی شکار میں ملوث افراد محکمانہ معاوضہ کی ادائیگی کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ وہ عدالت میں جانے، وکلا کی فیس بھرنے اور پھر پیشیوں پر آنے سے بچ جائیں گے جبکہ اس طرح انہیں یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ معاملہ عدالت میں جانے سے ان کی بدنامی ہوگی۔

پنجاب وائلڈ لائف کے سینیئر افسر کہتے ہیں کہ محکمانہ معاوضہ کا قانون دراصل سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور افسران کو عدالتی سزا سے بچانے کے لیے بنایا گیا۔ ان افراد کو خطرہ ہوتا ہے کہ اگر انہیں عدالت نے معمولی سزا بھی دے دی تو وہ ملازمت کرنے یا پھر پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمانہ معاوضہ سرکاری خزانے میں چلا جاتا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس معاوضے سے جانور خرید کر واپس جنگلی ماحول میں چھوڑے جائیں۔

پنجاب وائلڈ لائف (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن و مینجمنٹ) رولز 1974 کے مطابق وائلڈلائف شیڈول ون اور فورتھ میں شامل جنگلی جانوروں اور پرندوں ماسوائے تیتر، بٹیر اور مرغابیوں کے شوٹنگ لائسنس کی فیس ایک سال کے لیے پاکستانی شہریوں کے لیے دوہزار روپے جبکہ غیرملکی شہریوں کے لیے 10 ہزار روپے ہے۔

وائلڈ لائف شیڈول ون میں شامل آبی پرندوں کے شکار پرمٹ جس کی معیاد دو دن اور مخصوص علاقہ کے لیے ہوگی اس کی فیس پاکستانی شہریوں کے لیے 500 روپے جبکہ غیر ملکی شہریوں کے لیے 50 ہزار روپے ہے۔ شیڈول ون میں شامل تیتر اور بٹیر کے شکار کا پرمٹ جس کی معیاد ایک دن اور مخصوص ایریا کے لیے ہوگی اس کی فیس پاکستانی شہریوں کے لیے 500 روپے جبکہ غیرملکی شہریوں کے لئے 50 ہزار روپے ہے۔

اسی طرح مختلف اقسام کے ہرنوں جن میں کالا ہرن، چنکارہ، ہاگ ڈئیر، چتکبرہ ہرن، نیل گائے اور پنجاب اڑیال شامل ہے۔ ان کے قانونی شکار جسے ٹرافی ہنٹنگ کہا جاتا ہے اس کے لیے گن شوٹنگ لائسنس کی فیس 500 امریکی ڈالر ہے جبکہ ٹرافی ہنٹنگ کی فیس نیلامی کے ذریعے طے کی جاتی ہے۔ وائلڈ لائف ایکٹ کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ فیس 12 ہزار امریکی ڈالر سے کم نہیں ہوگی۔ پنجاب وائلڈ لائف ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت وزارت موسمیاتی تبدیلی کی اجازت اور جانوروں کی تعداد سرپلس ہونے کی صورت میں ہی دیتا ہے۔

پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے مئی 2018 میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کے غیرقانونی شکار، تحویل میں رکھنے سے متعلق جرمانوں میں تبدیلی کی تھی جس کے تحت فرسٹ شیڈول کی کیٹیگری ایک سے چھ اور کیٹیگری آٹھ میں شامل پرندوں کے غیرقانونی شکار 10 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح ہاگ ڈیئر کے شکار پر دولاکھ روپے، بارکنگ ڈیئر کے شکار دو لاکھ، اڑیال، گورال اور مفلن شیپ کے شکار پر ڈھائی لاکھ روپے، چنکارہ اور نیل گائے کے شکار پر دو لاکھ، کالے ہرن کے شکار پر 5 لاکھ جبکہ چیتل ہرن کے شکار پر بھی پانچ لاکھ جرمانہ ہوگا جبکہ لیپرڈ، ڈولفن اور ریچھ کے شکار پر سب سے زیادہ 20 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ پینگولین کے شکار پر دو لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح مختلف جانوروں کے شکار کے لیے مختلف جرمانے شامل ہیں۔

وائلڈلائف کے شیڈول تھرڈ میں شامل پرندوں کے شکار پر 25 ہزارسے لیکر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سب سے زیادہ جرمانہ گریٹ انڈین بسٹرڈ کے شکار پر 10 لاکھ روپے ہے۔

جنگلی حیات کے ماہر بدر منیر کہتے ہیں کہ ماضی میں وائلڈ لائف ایکٹ میں ترمیم کرکے سزائیں بڑھائی گئی تھیں، وہ سمجھتے ہیں کہ قیمتی، نایاب اور بڑے جانوروں کا غیرقانونی شکار کرنے والوں کو جرمانے/محکمانہ معاوضے کے ساتھ قید کی سزا بھی ہونی چاہیے، چاہے وہ ایک دن کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس سے غیرقانونی شکار کرنے والوں کے دل میں خوف پیدا ہوگا۔

بدرمنیر کہتے ہیں کہ غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی (سی بی سی) کو فعال کرنا ہوگا کیونکہ سی بی سی وہیں کام کریں گی جو ماضی میں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن (سی بی اوز) کرتی رہی ہیں۔ وہ اپنے ایریا میں ناصرف جنگلی حیات کی پروٹیکشن اورکنزرویشن کریں گی بلکہ غیرقانونی شکار کی روک تھام میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

ہنٹرز اینڈ کنزر ویٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر مستنیر لودھی کہتے ہیں کہ غیرقانونی شکاری وائلڈ لائف کے چہیتے بیٹوں کی مانند ہیں۔ وائلڈلائف قوانین کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ وائلڈ لائف والوں کی ساری توجہ بندوق سے شکار کرنے والوں کی طرف ہے جبکہ بندوق سے جنگلی حیات کو اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا جال سے جانوروں اور پرندوں کو پکڑنے والے پہنچاتے ہیں، ان کے لیے سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وائلڈلائف شیڈول تھرڈ میں شامل جانوروں کا شکار کرنے والوں کو سخت سزائیں ملنی چاہیں۔

مشن اوئیرنس فاؤنڈیشن کے سربراہ فہد ملک تو جرمانہ اور سزا سے بڑھ کر اس موقف کے حامی ہیں کہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کے قانونی اور غیرقانونی ہر طرح کے شکار پر پابندی ہونی چاہیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں