11

بانی پی ٹی آئی کی سیاست

[ad_1]

ملک اس وقت بے شمار مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔جناب عمران خان صاحب ملک کے اندر مسئلہ بھی ہیں اور اس مسئلے کا حل بھی ہیں۔ 30جولائی کو صحافیوں سے جیل کے اندر بات کرتے ہوئے جناب عمران خان نے ایک بڑی تبدیلی کا مظاہرہ کیا اوراسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔میری دانست میں جناب عمران خان صاحب کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔وہ اس سے پہلے بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بات کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ سے کریں گے۔پہلے بھی سابق صدر جناب عارف علوی کے توسط سے انھوں نے ایوانِ صدر میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں کیں اور ان کو اپنی طرفداری کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن یہ کوششیں بوجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔

پالیسی لیول پر اب بھی جناب عمران خان نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔وہ اب بھی فوج کو ہی اپنا ملجا اور ماوا سمجھتے ہیں اور فوج کے بل بوتے پر حکومت میں آنا چاہتے ہیں۔وہ صرف اپنے گذشتہ ایک دو سال کے تجربے کی بنیاد پر ٹیکٹیکل لیول پر تبدیلی کر کے براہِ راست آرمی چف سے مذاکرات کے بجائے ذرا نیچے اتر کر فوج کو نمایندہ مقرر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔وہ یہ دیکھ چکے ہیں کہ آرمی چیف سے براہِ راست مذاکرات کی ان کی پالیسی مطلوبہ نتائج نہیں لا سکی۔اپنے پونے 4سالہ دورِ اقتدار اور پھر تقریباً دوسالہ اقتدار سے باہر انھوں نے اپنی حریف سیاسی جماعتوں سے کبھی علیک سلیک،بات یا مذاکرات نہیں کیے اور اب بھی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ سیاسی رہنماؤں سے بالکل بات نہیں کریں گے اور یہی،میری نظر میں،ان کا ٹریجک فلا Tragic Flawہے جس کا ادراک نہ خود ان کو ہے اور نہ ان سے محبت میں مبتلا فالورز کو ہے۔

ذوالفقار علی بھٹوایک بہت ذہین اور ہوشیار سیاست دان تھے۔انھوں نے نجی شعبے کو قومیا کر معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا لیکن ہر کوئی اس کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ ایک انتہائی تیز سیاست دان تھے۔وہ بہت پڑھتے بھی تھے۔ انھوں نے اپنے دروازے کبھی بھی بند نہیں کیے اور ہر وقت حریف سیاستدانوں سے بات کرنے کو تیار رہتے تھے۔جناب عمران خان صاحب کو تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پینترا بدلنا ہو گا اور جس طرح موقع کی مناسبت سے بھٹو صاحب سید مودودی کے گھر پہنچ گئے تھے۔

اسی طرح عمران خان کو سرپرائز دیتے ہوئے حکومت میں شامل سیاسی رہنماؤں سے مذاکرات کرنے چاہیئیں۔اس سے ان کا بھی بھلا ہو گا اور ملک کے اندر جمہوری روایت بھی پھلے پھولے گی۔ملک کے اندر جمہوریت کے پودے کی آبیاری ضروری ہے ۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جناب عمران خان کی اس moveسے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ان کے حریف جیسے بھی ہیں وہ پاکستانی ہیں اور تمام پاکستانیوں کو مل کرجمہوری روایت مضبوط کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔

جناب عمران خان صاحب اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے کیوں تیار ہیں۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ توشہ خانہ کیس اس کی ایک وجہ ہے ۔عمران خان کو یہ بھی اندازہ ہے کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر پا رہی۔ملک کی معیشت بہت دباؤ کا شکارہے۔عوام کی اس حکومت سے توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔حکومت مہنگائی میں پستے عوام کو کوئی ریلیف دینے میں سنجیدہ نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو عوام کے بڑے بڑے مسائل اس حکومت کے پیدا کردہ ہیں۔ Capacity Charges کا بھاری بوجھ صرف اس لیے عوام کے اوپر سے نہیں ہٹایا جا رہا کیونکہ اس لوٹ کھسوٹ میں حکومتی رہنما خود لتھڑے ہوئے ہیں۔

وہ اپنی آمدن نہیں کم کرنا چاہتے، چاہے عوام کا خون کرنا پڑے۔پچھلے دو تین ہفتوں میں عوام اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔جناب عمران خان کو ادراک ہے کہ اس وقت حکومت عوام کے سامنے ننگی ہے اور ساتھ ہی یہ حکومت چاہتی ہے کہ بجلی کے بڑے بڑے بلوں سے عوام کے اندر جو ہیجان پیدا ہوا ہے،اس طوفان کو چپ کر کے گزارنا ہے لیکن جناب عمران خان کے لیے یہی نادر موقع ہے۔اگر کسی طرح وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے اقتدار کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔جناب عمران خان صاحب اس لیے بھی مذاکرات چاہتے ہیں کہ ان دنوں جیل میں ان کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ جناب عمران کا بہت خیال رکھا جا رہا لیکن اب جناب کی مشکلات  میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ جیل سے نکلنا بھی چاہتے ہیں کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب وہ جیل سے باہر مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ان کی ٹیم میں چوٹی کا کوئی لیڈر نہیں اس کمی کو وہ خود رہا ہو کر ہی پورا کر سکتے ہیں۔

عمران خان کی منصوبہ بندی اور پالیسی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ طے ہے کہ سانحہ نو مئی پر کوئی رعایت نہیں ملے گی۔عمران خان گفتگو کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں کوئی احتیاط نہیں کرتے،انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو خوب لتاڑا ہے۔فوج اور ایئر فورس تنصیبات پر حملے ہوئے ہیں‘جانور‘ میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دیے گئے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر شہیدوں کی یادگاروں کو مسمار کیا گیا۔ایئر بیس پر حملہ اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مزار کو روندا گیا۔یہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا اور جناب عمران خان کو آگے بڑھ کر اس کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں اور میڈیا وی لاگرز کو ایک بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی اور خاص کر ایسا ملک جس کے اطراف میں دوست نہیں بلکہ دشمن ہوں،مضبوط فوج کے بغیر نہیں رہ سکتا۔صرف ایک انتہائی موئثر،منظم اور بہترین وار مشین ہی دشمنوں کو سرحد پار کرنے سے روک سکتی ہے۔کسی ملک کے عوام چاہے جتنے ہی محبِ وطن اوراکٹھے ہوں، ماڈرن دور کی ٹیکنالوجی اور فائر پاور سے لیس دشمن افواج کو نہیں روک سکتے۔خاکم بدہن اگر فرض کر لیا جائے کہ پاکستان کی افواج کو منتشر کرکے اسے ایک ایسا ملک بنا لیتے ہیں کہ جہاں فوج نہ ہو تو غالب امکان ہے کہ اسی دن بلکہ اسی لمحے دشمن افواج پاکستان میں داخل ہو جائیں گی۔ملک کے اندر کوئی نہ کوئی فوج تو ہو گی۔اگر اپنی فوج نہیں ہو گی تو کسی دوسرے ملک کی فوج آ جائے گی ۔یہ ملک بر صغیر کو اس کی اکثریت کی مرضی کے خلاف تقسیم کر کے وجود میں آیا ہے۔

اس کے اوپر یا اس کے کسی حصے کے اوپر دوسری فوج کے قبضے کا مطلب پاکستان کے وجود سے ہاتھ دھونا ہے۔اس ملک کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہمیں اپنی اپنی سیاست اور اناکی قربانی دیتے رہنا ہوگا،ہمیں ہر وقت انتہائی چوکس وچوکنا رہنا ہو گا۔یہ دیکھتے رہنا ہو گا کہ کہیں ہم بہکاوے میں آ کر ملک کی نیا نہ ڈبو دیں۔جناب عمران خان نے اپنے فالوورز کو تو انٹی اسٹیبلشمنٹ بنا دیا ہے لیکن خود وہ انٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہیں۔

وہ فوج کے علاوہ کسی اور طرف نہیں دیکھتے۔ہمارے پڑوسی ہماری بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔آئیں انا کو دفن کر کے پاکستان کو بچا لیں۔قارئینِ کرام مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی نے بنگلہ دیش میں ہنگاموں کے بعد بنگلہ دیشیوں کو مغربی بنگال آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہاں آ کر رہ سکتے ہیں۔محترمہ حسینہ واجد نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مودی جی کو خط لکھ دیا ہے۔مودی جی نے ممتا بینرجی کو سخت سست کہتے ہوئے اپنی حدود میں رہنے کا کہا ہے۔ممتا بینرجی نے مودی جی کو ہِٹ بیک کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بنگالی بھائیوں کو ہر حال میں خوش آمدید کہیں گی۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں