[ad_1]
ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی ، بے روزگاری، غربت میں اضافہ اور بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے عوامی سطح پر پیدا شدہ احاسات سیاست پر غالب ہیں۔ سیاسی جماعتوں اورسول سوسائٹی کے علمبردار بھی خاموش ہیں ۔
ایسے میں کہیں بھی عوامی مفادات پر مبنی سیاست یا عام آدمی کی معاشی مشکلات پر کوئی مضبوط آواز کا نہ ہونا ، ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی ترجیحات کیا ہیں اور سول سوسائٹی کے مقاصد کیا ہیں۔ اگر حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے برعکس ہو تو ہماری امید کا ایک پہلو حزب اختلاف یا دیگر فریقین کی جانب سے ایک مضبوط آواز اور مزاحمت کی صورت میں نظر آتا ہے ۔لیکن جیسے حکمرانی کے نظام میں مایوسی ہے ویسے ہی حزب اختلاف کی سیاست بھی اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔
موجودہ مایوس کن حالات میں قومی سطح پر جو چیز دیکھنے کو ملی ہے وہ ’’ جماعت اسلامی کا دھرنا ‘‘ ہے ۔ مکمل بے حسی، موقع پرستی اور مفاد پرستی کی اس فضا میں جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان کو داد دینی ہوگی کہ قیادت نے خود کو بھی اورجماعت اسلامی کو عوامی مفادات اور مشکلات کے ساتھ جوڑا ہے ۔ جماعت اسلامی کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے اور جن کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے، وہ مال مست اور حال مست ہیں مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی عوام کی ایک توانا اورمنظم آواز بن کر حکمرانوںکو چیلنج کررہی ہے ۔ میرے خیال میں سیاست سے قطع نظر ہرشہری کا فرض اور ذمے داری ہے کہ وہ اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تاکہ حکمران اتحاد پر دباؤ ڈال کر امید کے نئے پہلوؤں کو سامنے لایا جاسکے ۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت نے جماعت اسلامی کو عوامی جہت دی ہے ۔
حافظ صاحب کے بقول آئی پی پی ایز کے معاہدے حکومتوں کی مجبوری نہیں بلکہ نااہلی، بدعنوانی اور ذاتی مفاد کی کہانی ہے ۔جماعت اسلامی نے اس دھرنے کو بنیاد بنا کر دس نکاتی مطالبات پیش کیے ہیں ۔ جن میںبجلی صارفین کو پچاس فیصد رعایت ، پٹرولیم لیوی کا خاتمہ ، پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا خاتمہ ،اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 20فیصد کمی ، اسٹیشنری ایٹمز پر عائد کردہ نئے ٹیکسوں کا خاتمہ ، حکومتی اخراجات کم کرکے غیر ترقیاتی اخراجات میں 35فیصد کمی ، بجلی کے نظام میں کپیسٹی چارجز اور آئی پی پی ایز کو ڈالروں میں ادائیگی کا خاتمہ اور تمام معاہدوں کا ازسر جائز ہ لینے، زراعت اور صنعت پر ناجائز ٹیکس کا خاتمہ، تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کا خاتمہ اور مراعات یافتہ طبقہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے مطالبات شامل ہیں ۔ یہ مطالبات جماعت اسلامی کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں جو حقیقی معنوں میں معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کا دھرنا نتیجہ خیز ہوگا؟ اس کی ایک شکل ہم نے حکومتی سطح پر دھرنے والوں سے بننے والی مزاکراتی کمیٹی میں شامل افراد کے ناموں سے اندازہ لگالیا ہے کہ بے اختیار کمیٹی اور اہم حکومتی افراد کی عدم موجودگی مذاکراتی عمل کو کسی بھی طور پر نتیجہ خیز نہیں بناسکے گی ۔دیکھنا صرف یہ ہے کہ جماعت اسلامی اپنی اس مزاحمت کو کس حدتک آگے لے جاتی ہے اورکیا وہ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے یا واپس لوٹیں گے یا اس مزاحمت کو اس حد تک آگے بڑھاتے ہیںکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر عوام کو کوئی بڑا ریلیف دلوانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اس دھرنے میں عوام سے زیادہ فی الحال جماعت اسلامی کے کارکنان کا غلبہ ہے۔
بالخصوص جماعت میں موجود خواتین اس میں بھرپور طریقے سے شریک ہیں ۔کیونکہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے ان کے اپنے خاندانی اور گھریلو نظام کو بہت زیادہ متاثرکیا ہے اورمعاشی بدحالی کا ایک بڑا بوجھ ان پر بھی پڑا ہے ۔ جماعت اسلامی کے مطالبات میں عوامی رنگ اور مشکلات کی جھلک دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ دھرنا عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی ابتدا ہوسکتا ہے اور آنے والے دنوں میں اگر حکمران طبقہ نے اپنی سیاسی اور معاشی روش کو تبدیل نہ کیا تو اس طرز کے دھرنوں یا احتجاج کی سیاست قومی سیاست پر غالب ہوسکتی ہے ۔کیونکہ لوگ تنگ ہیں اور ان کے پاس جینے کے آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں۔ایک طرف یہ بدحالی ہے تو دوسری طرف موجود حکمران طبقات کی عیاشیوں کا کھیل ہے جو عوام کے ٹیکسوں کی بنیاد پر کھیلا جا رہا ہے ۔
حکمران دھرنے کی سیاست کو حالات کے بگاڑ کا حصہ سمجھتے ہیں ، لیکن اپوزیشن اس دھرنے سے لاتعلق کیوں ہے ؟جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں نہ ہوں تو وہ خود دھرنے اور جلوسوںکی سیاست کرتی ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ دھرنے کی سیاست کیونکر ہوتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہم پارلیمنٹ اور دیگر سیاسی وحکومتی فورمز پر ان مسائل کا حل کیوں نہیں تلاش کرتے ۔کیاوجہ ہے کہ ہمارا حکومتی نظام عوامی مفادات پر مبنی پالیسی کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بناتا ۔کیونکہ جب پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمایندے قومی مسائل کا حل پیش نہ کرسکیں تو لوگ کیسے حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں ۔جب تک سیاسی جماعتیں دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرتیں توکسی بھی سطح پر حکومتی دباؤ نظر نہیں آتا اور اس کا نتیجہ حکمرانوں کی من مانی سیاست اور فیصلے ہوتے ہیں ۔یہ دھرنا فی الحال جماعت اسلامی کے لوگوں کا ہے دیگر جماعتیں اس سے لاتعلق ہیں یا الفاظ کی حد تک حمایت کررہی ہیں ۔
تحریک انصاف کی سیاست اس وقت عملی طور پر عوامی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ پی ٹی آئی کو اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں جلسہ کرنے کے لیے اجازت لینے کے مسائل ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں تو پی پی ٹی کی قیادت جماعت اسلامی سے یک جہتی کے لیے دھرنا دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ۔
وہ اپنے جھنڈوں کی بجائے یا عمران خان کے نعروں سے گریز کرکے اس تحریک کا حصہ بنیں اور اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں تو اس کی مدد سے حکمرانوں پر بڑا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے ۔ اس تناظر میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مشترکہ حکمت عملی بھی طے کرسکتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی جماعت کے دھرنے کو منفی رنگ دینے یا اس سے خود کو علیحدہ رکھنے کی حکمت عملی نقصان دہ ہوگی ۔مسئلہ جماعتی نہیں بلکہ قومی مسائل سے جڑا ہوا ہے اور قومی حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھنا چاہیے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی دھرنا حکمت عملی یا حافظ نعیم الرحمن کے جارحانہ اور سخت گیر حکمت عملی درست نہیں وہ یہ ضرور آگاہ کریں کہ کوئی بھی جماعت ہو، وہ ان حالات میں سیاسی و معاشی بدحالی کے خاتمے کے لیے کیا راستہ اختیار کرے ؟ سیاست اور جمہوریت میں احتجاج اس کا حصہ ہے اور اگر یہ پرامن ہو اورسیاسی وقانونی دائرہ کار میں ہو جس میں بغاوت اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے یا پر تشدد سیاست نہ ہو تو ہمیں دھرنوں کی سیاست سے ڈرنے کے بجائے اس کوقبول کرنا چاہیے ۔ اس لیے جماعت اسلامی کا دھرنا اور مزاحمت قومی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اس کی ہر سطح پر کسی بھی جماعت کی حمایت کے بغیر حمایت کرنی چاہیے ۔
[ad_2]
Source link