11

گوہر بائی کلکتے والی‘۔چھپن چھری الٰہ آباد والی( آخری حصہ)

[ad_1]

گوہر جان شاعرہ بھی تھیں اور ’’ہمدم‘‘ تخلص کرتی تھیں، ان کا ایک شعر ان کے قدر دانوں کو آج تک یاد ہے۔

شاید کہ یاد بھولنے والے بھی پھرکیا

ہچکی اسی سبب سے ہے ہمدم لگی ہوئی

ایک بار گوہر جان الٰہ آباد گئیں اور وہاں اپنی سہیلی اور خوبصورت گلوکارہ جانکی بائی عرف چھپن چھری کے ٹھہریں، جانکی بائی بھی شاعرہ تھیں اور اکبر الٰہ آبادی سے اصلاح لیتی تھیں۔ گوہر جان نے کہا کہ وہ حضرت اکبر الٰہ آبادی سے ملنا چاہتی ہے۔ جانکی بائی وقت لے کر دوسرے دن گوہر جان کو اکبر سے ملوانے ان کے گھر لے گئیں، کافی دیر کی گفتگو کے بعد جانکی بائی نے اکبر سے کہا کہ وہ کوئی شعر گوہر جان کے لیے کہہ دیں۔ انھوں نے فوراً ایک کاغذ اٹھایا، فی البدیہہ شعر لکھا اور جانکی بائی کے حوالے کیا، اس نے پرچہ کھولا تو یہ شعر لکھا ہوا تھا۔

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

اس شعر نے جیسے گوہر جان کے جسم میں پتنگے لگا دیے، وہ واپس کلکتہ آئی اور اپنے سیکریٹری غلام عباس سے شادی کر لی جو کہ عمر میں اس سے دس سال چھوٹا تھا۔ گوہر جان نے بھی کبھی کسی سے محبت کی تھی۔ اس شخص کا نام تھا امرت کیسرناتھ، وہ تھیٹر کے فنکار تھے۔ 1904 میں گوہر کا رومانس چلا اور تین سال بعد جب دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا تو قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ امرت کیسرناتھ وفات پا گئے۔ گوہر اس صدمے سے بے حال ہوگئی اور اس نے ساری توجہ اپنی گائیکی اورکتھک رقص پہ لگا دی۔ غلام عباس کبھی بھی گوہر جان سے مخلص نہیں تھا۔ وہ اس کے کاروباری معاملات دیکھتا تھا۔

1896 میں دلی میں ایک جشن منایا گیا جوکہ پرنس آف ویلز کی تاج پوشی کے موقع پر تھا۔ اس جشن میں گوہر جان اور چھپن چھری نے مبارکبادی گائی:

یہ جلسہ تاج پوشی کا

مبارک ہو مبارک ہو

دونوں گلوکاراؤں نے یہ مبارک بادی اس مہارت اور خوبصورتی سے گائی کہ برٹش سرکار نے دونوں کو ایک ایک سو اشرفیاں انعام دیں۔

گوہر جان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آسٹریا میں بننے والی ماچس کی ڈبیہ پہ ان کی تصویر ہوتی تھی جو ہندوستان میں بھی بکتی تھی۔ گراموفون کمپنی گوہر جان کے پوسٹ کارڈ چھاپتی تھی جو فوراً بک جاتے تھے۔ اس لحاظ سے گوہر جان ایک انٹرنیشنل فنکارہ بن گئیں۔

جس شخص سے گوہر نے شادی کی تھی، یعنی غلام عباس یہ ایک پٹھان تھا اور تمام کاروباری معاملات وہی دیکھتا تھا۔ شادی کے بعد اس نے نہایت چالاکی سے گوہر جان کی جائیدادیں بیچ دیں، جب گوہرکو پتا چلا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ مقدمے چلے، عدالتوں کے چکر لگے، وکیل کیے گئے لیکن کچھ نہ ہوا۔ غلام عباس نے تمام کام اتنی ہوشیاری سے کیا تھا کہ عدالت اور وکیل بھی اس کی استادی مان گئے، جوکچھ بچا تھا وہ وکیلوں کی فیسوں کی نذر ہو گیا اور گوہر جان بالکل قلاش ہوگئی۔

جائیداد کے بعد زیور بکنا شروع ہوا اور پھر عمر کے آخری حصے میں گوہر جان کو میسور کے راجہ کرشن وڈیار نے انھیں اپنے دربارکی مغنیہ کے طور پر بلوایا، گوہر جان چودہ سال تک اس دربار سے وابستہ رہیں۔ انھیں میسور میں شانپی گائیکہ کا خطاب دیا گیا۔ جب وہ بیمار ہوئیں تو ایک اسپتال میں داخل کر دیا گیا اور وہیں 17 جنوری 1930 کو انتقال ہوا۔ افسوس کہ چھ گھوڑوں والی بگھی میں گھومنے والی، اس وقت کی کروڑ پتی مغنیہ کا انتقال ایک اسپتال میں ہوا اور انٹرنیشنل فنکارہ کا خطاب پانے والی کا اتنا حسرت ناک انجام ہوا کہ وفات کے تین دن کے بعد ایک اخبار میں چار سطروں کی ایک مختصر سی خبر لگی۔

اب ہم بات کرتے ہیں جانکی بائی عرف چھپن چھری کی جو الٰہ آباد کی مشہور مغنیہ تھی۔ ان کے گلے میں سروں کی مالا تھی، وہ جہاں بیٹھ کر گاتیں جب گانا ختم ہوتا وہ جگہ چاندی کے سکوں سے بھر جاتی۔ چھپن چھری الٰہ آباد کا فخر ہے۔ خاص کر کتھک میں الٰہ آباد کا بڑا رول ہے ۔ جانکی بائی کا جنم بنارس میں 1875 میں ہوا، ان کی ماں کا نام منکی اور باپ کا نام شری بالک رام یادیو تھا جو پیشے کے اعتبار سے پہلوان تھے اور دودھ دہی کی دکان چلاتے تھے۔

جانکی کی ایک سوتیلی ماں بھی تھی جس کا نام لکشمی تھا، یہ ایک نچلی ذات کی عورت تھی اور کسی وجہ سے کسی پل پر سے کود کر خودکشی کر رہی تھی کہ جانکی کے باپ نے بچا لیا اور اسے گھر لے آئے، کچھ عرصے بعد دونوں میں تعلقات ہوگئے، اسی دوران لکشمی ایک سپاہی رگھونندن سے ملنے لگی، اس وقت جانکی کی عمر صرف بارہ برس تھی، اور وہ مندروں میں بھجن گاتی تھی۔ اسے چھپن چھری اس لیے کہا جاتا ہے کہ رگھونندن ایک دن لکشمی سے ملنے آیا تو جانکی نے دیکھ لیا، وہ پلٹ گئی، لیکن رگھونندن غصے سے پلٹا اور برف توڑنے والی چھری لے کر اس کے پیچھے آیا اور جانکی پر تابڑتوڑ حملے کیے اور پھر بھاگ نکلا، لکشمی رونے پیٹنے کا بہانہ کرنے لگی، محلے والے اکٹھا ہوگئے، اور اسپتال لے گئے۔ جانکی کے چہرے اور بدن پر چھپن گاؤ لگے تھے، وہ سات ماہ تک اسپتال میں رہی، رگھونندن کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کو سزا ہو گئی۔

جانکی بائی کی شکل و صورت معمولی تھی پھر اوپر سے چہرے پہ لگے گھاؤ، رنگ کالا، لیکن خدا نے گلے میں نور بھردیا تھا، وہ اس زمانے میں جب سونا بیس روپے تولہ بکتا تھا ایک گانے کی ریکارڈنگ کے ایک ہزار لیتی تھی، جس دن جانکی پر رگھونندن نے حملہ کیا اسی رات لکشمی سارا زیور اور روپیہ لے کر فرار ہوگئی اور اگلے دن جانکی کا باپ دونوں ماں بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر کہیں چلا گیا، ماں بیٹی پر فاقوں کی نوبت آگئی،کوئی ادھار بھی نہ دیتا تھا، اسی دوران پاربتی نام کی ایک عورت نے ماں بیٹی کو جھانسا دیا اور انھیں بنارس سے لے کر الٰہ آباد آگئی۔ وہاں ایک کوٹھے پہ بیچ دیا۔

جہاں ماں بیٹی نے اسے اپنی تقدیر سمجھ لیا۔ چھپن چھری وہاں کتھک پیش کرتی تھی اور ماں گھر کا سارا کام کرتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد جانکی کی ماں کوٹھے کی مالکن بن گئی۔ اب چھپن چھری کتھک بھی پیش کرتی اور گانا بھی گاتی۔ جب وہ گانے کے لیے بیٹھتی تو اس کا چبوترہ چاندی کے سکوں سے بھر جاتا۔ اس کی محفل میں شائستگی کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔ مختلف گراموفون کمپنیوں نے چھپن چھری کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اسے انگریزی، فارسی اور سنسکرت پڑھانے کے لیے الگ الگ استاد آتے تھے۔

جانکی بائی نے ایک وکیل شیخ عبدالحق سے شادی کرلی اور اسلام قبول کر لیا، لیکن چند سال بعد جب کوئی اولاد نہ ہوئی تو یہ شادی ٹوٹ گئی۔ 14 اگست 1921 میں اس نے ایک ٹرسٹ بنایا اور اپنی ساری جائیدادیں اس ٹرسٹ کے نام کر دیں۔ الٰہ آباد میں ایک مسافر خانہ بھی بنوایا جہاں رہائش کے ساتھ کھانا بھی مفت ملتا تھا۔ اس ٹرسٹ کے لیے ضروری تھا کہ اس ٹرسٹ میں دو مسلمان اور دو ہندو پنڈت کے علاوہ چھپن چھری خود تھی۔وہ لوگوں کی مدد بلا تفریق مذہب و ملت کرتی تھیں۔

جانکی کے قدردانوں میں بہت سے نام ہیں جن میں سید عابد علی جو ٹرسٹ کے ممبر بھی تھے۔ سرتیج بہادر سپرو، موتی لال منگرو، لالہ رام دیال، ڈپٹی فضل خان، شیخ عبدالحق، منشی موہن لال، جسٹس کنہیالال اور انگریزی کے پروفیسر امرناتھاجھا سرفہرست ہیں۔ جانکی صاحب دیوان شاعرہ بھی تھی، ان کا دیوان ’’دیوان جانکی‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ وہ اپنے گیتوں کی دھن بھی خود بناتی تھیں۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کی بہت طاقت ور اور مدھر آواز تھیں، سارنگی، ستار اور طبلہ بھی بجا لیتی تھیں۔ ان کی آواز قدرت کا ایک انمول عطیہ تھی۔

چھپن چھری یعنی جانکی بائی پالکی میں سفر کرتی تھیں۔ حکومت نے انھیں چار سپاہی دیے تھے جو دو پالکی کے آگے چلتے اور دو پیچھے۔ حکومت نے انھیں دو نالی بندوق کا لائسنس بھی دیا تھا۔ ان کی گائیکی اتنی سریلی اور خوش کن تھی کہ جب وہ کوئی گیت بھجن یا غزل گاتیں تو سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا۔ لوگ ان کی صورت بھول کر ان کی آواز کے سحر میں گرفتار ہو جاتے۔ آخری عمر میں بیمار ہوئیں اور 18 مئی 1934 کو انتقال کر گئیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں