8

حج کا سفر، بارگاہِ رحمت میں حاضری

مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا ہمارے گھر میں ہمارے والد صاحب ہر ماہ کی آخری جمعرات کو درود شریف اور حمد و نعت کی محفل کا اہتمام کیا کرتے تھے ہمارے ایک خالو افضل جو بہت اچھے نعت خواں تھے اور ان کی پارٹی بھی جو میلاد شریف پڑھنے میں مشہور تھی اور یہ پارٹی دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں میں عید میلادالنبی کے موقع پر میلاد کی محفلوں کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر محلے میں ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلوں کی بڑے شاندار پیمانے پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا۔

مجھے بچپن میں نعتیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا میری آواز بہت اچھی تھی مجھے رشتے داروں کے گھروں میں اکثر و بیشتر نعتیں سنانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ میرے والد حکیم حاجی قاضی یٰسین علی نے کئی حج اور کئی عمرہ بھی کیے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب حج کے لیے پانی کے جہاز کے ذریعے لوگ جایا کرتے تھے، ہمارے والد نے اپنی اولاد کے لیے بھی دعائیں کی تھیں کہ عمر کے کسی بھی حصے میں حج کی سعادت ان کی اولاد کو بھی حاصل ہو جائے اور یہ ان کی دعاؤں کے طفیل ہی تھا کہ ان کی اولاد کو بھی حج کی سعادت حاصل ہوگئی تھی۔

ہم نے بھی اس سال حج پر جانے کا ارادہ کر لیا تھا، اور اخراجات کی رقم جمع کرا دی تھی پھر ایک ایک دن گن گن کر انتظارکا گزار رہے تھے، پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ ہم ایئرلائن کے ذریعے سفر حج کے لیے ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے ایئرپورٹ پر ہمیں گھر کے دیگر افراد نے بڑی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا یہ فلائٹ زیادہ تر حج پر جانے والوں سے بھری ہوئی تھی جہاز میں بیٹھے لوگوں کے ہونٹوں پر اللہ اکبر کی تکبیریں تھیں، ہمارا جہاز ایک دن کے طویل سفر کے بعد دوسرے دن دوپہر دو بجے کے قریب مدینہ کے ایئرپورٹ پر اترا تھا ہمارا پہلا پڑاؤ مدینہ شریف کے لیے تھا۔ مدینے میں ہم نے ہوٹل میں قیام کیا تھا، یہ ہوٹل مسجد نبوی کے بالکل قریب تھا جیسے ہی ہم ہوٹل سے نکل کر باہر آتے تھے چند قدم چلنے کے بعد ہمیں مسجد نبوی کا سبز گنبد نظر آنے لگتا تھا۔

فجر کی اذان کی آواز سن کر ہم ہوٹل سے وضو کرکے مسجد نبوی کے لیے نکل جاتے تھے، صبح کا سہانا منظر اور پھر مدینے کی ہوائیں ہمارے احساس میں شامل ہو جاتی تھیں ہم درود شریف پڑھتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہوتے تھے۔ ہمارا سارا وقت عبادات کے ساتھ درود شریف پڑھتے ہوئے گزرتا تھا۔ ہم نے پہلے دن ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس کے قریب جا کر اپنا سلام پیش کیا تھا۔ ہم جب تک نمازوں کے دوران مسجد نبوی میں رہتے تو تھوڑے تھوڑے وقفے سے آب زم زم پیتے رہتے تھے، مسجد کے صحن میں دھوپ کے وقت خوب صورت چھتریاں کھل جاتی تھیں، ان چھتریوں کی خوبصورتی بھی دیدنی تھی۔

یہاں دن، رات ہر وقت اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضے کی جالیوں کا تصور ہر وقت آنکھوں میں بسا رہتا تھا۔ مسجد نبوی میں ایک بے کراں سکون میسر ہوتا تھا لوگ پروانوں کی طرح ہر وقت یہاں موجود رہتے تھے کچھ لوگ روضہ رسولؐ کے قریب جا کر اور کچھ دور ہی سے حضور اکرمؐ کی خدمت اقدس میں ہر وقت سلام پیش کرتے رہتے تھے ہماری بھی کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہر نماز جماعت کے ساتھ مسجد کے اندر ہی پڑھی جائے پھر بھی بعض نمازیں ہم نے مسجد کے اندر جگہ نہ ملنے کی وجہ سے صحن میں بھی پڑھی تھیں۔ ہم نے مدینہ میں تین دن گزارے تھے اور یہ تین دن ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ تھے۔

ہم نے مدینہ میں قیام کے دوران کچھ جگہوں کی زیارتیں بھی کی تھیں ان میں مسجد قبا، مسجد عائشہ، مسجد قبلتین، مسجد بلال، مسجد بخاری، مسجد ابوبکر، میدان خاک شفا، میدان خندق، میدان اُحد جہاں ہم نے شہدا کے لیے فاتح بھی پڑھی تھی جب کہ مسجد قبا میں ہم نے دو رکعت نفل بھی پڑھے تھے ان دو رکعت نفل کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہوتا ہے اور یہ خوش نصیبی بھی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی تھی۔

مدینہ کے بعد ہماری دوسری منزل مکہ مکرمہ تھی مدینہ سے ہم بذریعہ ٹرین غروب آفتاب مغرب کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے تھے جہاں ہمارے گروپ کے ارکان نے بڑی محبت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا تھا، اس کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرم شریف میں آگئے تھے۔ کہتے ہیں حرم میں داخل ہوتے ہوئے ادھر ادھر نظر ڈالنے کے بجائے خانہ کعبہ پر پہلی نظر ڈالو اور پھر جو بھی دعا مانگو اس کو ضرور قبولیت کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ ہماری جب پہلی نظر کعبہ پر پڑی تو ہم نے اپنے لیے اپنے خاندان اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے لیے بھی خوب دعائیں مانگی تھیں۔

حج کے تمام ارکان اداکرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہم نے شکر ادا کیا تھا کہ جس مقصد کو لے کر ہم یہاں آئے تھے اب ہمارا وہ مقصد پورا ہو چکا تھا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں