7

مدارس رجسٹریشن حقیقت اور افسانہ

حالیہ چند ایام میں کچھ مذہبی عناصر کی طرف سے مدارس کی رجسٹریشن اور اس کے طریقہ کار پر چند سوالات اٹھائے گئے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کی طرف سے مدارس کی رجسٹریشن نہ کروانے کی وجہ حکومتی پالیسی ہے۔

اسی ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے ایک بیان کو میڈیا میں مختلف رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح ماضی قریب و بعید میں بھی چند علمائے کرام کی طرف سے یہی رویہ اپنایا گیا، حالانکہ بہت سارے افسانوں کے مقابلے میں حقیقت چند مختلف اور ٹھوس اصول و شواہد پر مبنی ہے اس کو جاننے کے لیے کچھ سال پیچھے جانا پڑے گا اور ماضی کے جھروکوں سے حقیقت کو آشکار کرنا پڑے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھی مذہبی حلقوں کی طرف سے بارہا یہ کہا گیا کہ مدارس کا محکمہ تعلیم کے ساتھ الحاق ہونا ایک فطری عمل اور ضرورت ہے۔

انھی گزارشات کی روشنی میں2019 میں منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ نے اتحاد تنظیم المدارس جو کہ اْس وقت مدارس کی نمایندہ تنظیم تصور کی جاتی تھی کے ساتھ باہمی گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں اتحاد تنظیم المدارس کے ذمے داران جن میں محترم مفتی تقی عثمانی، محترم مولانا محمد حفیظ جالندھری، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، محترم ساجد میر، محترم مولانا یٰسین ظفر اور مولانا عبدالمالک قابل ذکر ہیں۔

ان کے ساتھ باہمی اتفاق سے یہ طے پایا کہ اتحاد تنظیمات المدارس کے تحت مدارس کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم سے کی جائے گی جب کہ مدارس کی رجسٹریشن کا ایک فارم بھی وفاق کے نمایندوں کے ساتھ مرتب کیا گیا جس کی توثیق اتحاد تنظیم المدارس کے ذمے داران نے کی۔ اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم(ڈی جی آر ای) کا قیام عمل میں لایا گیا اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتحاد المدارس کے ساتھ الحاق شدہ مدارس بھی دوسرے ہزاروں مدارس کی طرح اپنی رجسٹریشن معاہدے کے مطابق ڈی جی آر ای کے ساتھ کرواتے جب کہ اس کے برعکس، بغیر کسی ٹھوس وجہ کے، اتحاد تنظیمات المدارس نے اپنے زیر انتظام و الحاق مدارس کی رجسٹریشن کروانے سے انکار کر دیا۔

ملک پاکستان کے وسیع تر مفادات اور بیرونی دنیا کو پاکستانی تعلیمی نظام کی بہتر عملی صورت عیاں کرنے کے لیے ریاستی اداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو وفاقی سطح پر جاری رکھا جائے اس سلسلے میں10 نئے وفاق اور پانچ ڈگری اوارڈنگ اداروں کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم نے ایچ ای سی سے کرائی۔ تاحال 17552 مدارس کی رجسٹریشن کا عمل تکمیل کو پہنچ گیا ہے جو کہ ایک احسن اقدام ہے۔ ڈائریکٹریٹ نے 598 مدارس میں 1196 اساتذہ مہیا کیے جن کو باقاعدہ طور پر ٹریننگ دی گئی اسی طرح 102600 بچوں کو کتابوں کے مکمل سیٹ مہیا کیے گئے جو کہ عصری علوم سے متعلق ہیں۔

بیرونی ممالک کے وہ طلباء جو پاکستانی مدارس سے اسلامی تعلیم کے حصول کے خواہاں ہیں ان کو ویزا اور اس کی ایکسٹینشن کے لیے سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ یہ طلبہ جب تعلیم مکمل کر کے اپنے ممالک کو جائیں گے تو پاکستان اور پاکستانی نظام تعلیم کے سفیر کے طور پر سامنے آئیں گے اور دوسری طرف ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلباء دنیاوی تعلیم کے حصول کے بعد اس قابل ہو جائیں گے کہ ملک پاکستان کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ اتحاد تنظیمات المدارس جو کہ اسٹیٹس کو پر اصرار کرتے ہوئے گورے کے بنائے ہوئے 1860کے ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن پر بضد ہے یہ ایکٹ سوسائٹیز کی رجسٹریشن کے بارے میں ہے جب کہ اس کی صرف ایک شق مدارس کی رجسٹریشن کے متعلق ہے۔

میرا ان علماء کرام سے، جو کہ گورے کے قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن پر اصرار کر رہے ہیں، سوال ہے کہ کیا مدارس کو وفاقی تعلیم کے ساتھ ہونا چاہیے یا پھر 1860 سوسائٹیز کے ایکٹ کے تحت جو کہ انگریز نے اپنے فائدے کے لیے بنایا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک تمام اسکول و کالجز بشمول مدارس محکمہ تعلیم کے ساتھ منسلک نہیں ہوں گے یکساں نصاب کی امپلیمنٹیشن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور مذہبی تعلیمی اداروں سے فارغ شدہ طلبہ اور پرائیویٹ اور پبلک اسکولوں کے طلباء کی سوچ و افکار اور عمل میں واضح فرق رہے گا۔ انگریز نے جہاں اسکول و کا لجز میں لارڈ میکالے کا دیا ہوا زہر آلود نصاب دیا وہاں پر مدارس بھی اس کے مکروہ عزائم کا شکار ہو گئے۔

1860 کا مدارس کی رجسٹریشن کا قانون اس کی اسلام و مدارس دشمنی کا عکاس ہے ان تمام حقائق کی روشنی میں 1860 کے ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کے حامی علماء سے دست بستہ التماس ہے کہ ملک و قوم کی بہتری اور یگانگت کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کے انتہائی دانشمندانہ عمل کا حصہ بنتے ہوئے اپنے زیر انتظام مدارس کا الحاق ڈی جی آر ای سے کروائیں۔ کیونکہ جتنا بڑا رتبہ ہوتا ہے اتنی بڑی ذمے داری کا احساس بھی ہونا اشد ضروری ہے۔ آئیں ملک کی عزت و توقیر اور اس کے روشن مستقبل کی خاطر گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول و کالجز اور یونیورسٹی کی طرح مدارس کو بھی ایک ہی دھارے میں لانے کے اس احسن اقدام کو سپورٹ کریں۔ حکومتی ادارے ہر وقت تعاون کے منتظر ہیں۔ آئیے ملک و قوم کے مفاد میں مل کر آگے بڑھیں۔ ہمارے لیے پاکستان کا وقار اور سالمیت سب سے اہم ہے  ؎

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

مضمون نگار ڈائریکٹر جنرل (ر)ریلیجس ایجوکیشن ہیں





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں