12

جزنام نہیں صورت عالم مجھے منظور

[ad_1]

دیکھا جائے تو دنیا میں سب کچھ وہی صرف ’’نام‘‘ کا ہے۔ بلکہ یہ’’دنیا‘‘ ہی نام کی دنیا ہے انسان بھی نام کا انسان ہے حیوان بھی نام کے حیوان ہیں زمان بھی نام کا اور مکان بھی نام کا مکان۔ یہ زمین یہ آسمان یہ چاند سورج ستارے سب کے سب صرف نام ہی نام۔مطلب یہ کہ سب کچھ نام کا ہے۔

نام وہ حکمران ہے جس کی حکومت سے کوئی باہر نہیں، چرندے پرندے اور گزندے یعنی انسان سب کے سب نام کے اسیر ہے ہم جب بچپن میں’’بوجھو تو جانیں‘‘ کھیلتے تھے اس زمانے میں ایک شخص نے یہ پہیلی ایجاد کی تھی کہ بتاؤ وہ کیا چیز ہے کہ جو سب کی پہچان ہے اور سب کو اس کی ضرورت ہے ۔

اس کے جواب میں کئی چیزوں کے نام لیے جاتے تھے۔ کوئی دولت کہتا تھا ،کوئی زندگی بتاتا تھا، کوئی ہوا کا نام لیتا تھا لیکن جس چیز کا بھی نام لیا جاتا تھا وہ انکار کر دیتا۔ ہم جو بھی نام لیتے وہ کم بخت پہیلی والا کہتا کہاور سوچو۔اور ہم تنگ آ جاتے پھر جب اس نے ہماری ہار ماننے پر جواب دیا تو ہم نہ صرف حیران رہ گئے بلکہ ’’مان‘‘ لیا کہ وہ ہے ’’نام‘‘۔ایسا کوئی اس عالم رنگ و بوُ میں نہیں جسے نام کی ضرورت نہ ہو، چاہے وہ نام اس کی صفت وستائش ہی کیوں نہ ہو لیکن ’’نام‘‘ تو بہرحال ’’نام‘‘ ہے اور نام ہی نام میں سب کا’’نام‘‘ ہوا تو ہوا نا۔اور اگر اس بات کو فلسفے کی زبان میں کہیں تو یہ دنیا اس کی موجودات سب کی سب صرف’’نام‘‘ کا نام ہے تب ہماری سمجھ میں آیا ہے کہ لوگ ’’نام‘‘ کے لیے مرتے کیوں ہیں۔ کہ نام ہی سب کچھ ہے باقی سب مایا ہے۔اور تو اور لوگ اس نام کے لیے بدنام تک ہوجاتے ہیں اور لوگ کیوں یہ کہتے ہیں کہ

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

پل بنا،چاہ بنا مسجدومحراب بنا

یہاں تک کہ لوگ اس نام کے لیے لیڈر تک بن جاتے ہیں، وزیر مشیر،امیر کبیر بلکہ معاون تک بن جاتے ہیں۔دیکھا جائے تو اس دنیا میں جو کچھ بھی بُرا بھلا ہوتا ہے۔نام ہی کے برکت سے ہوتا ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔دنیا کے سارے پاپا

پاپا کہتے ہیں بیٹا بڑا کام کرے گا

کچھ بھی کرکے اپنا اور میرا نام کرے گا

یہ نام ہی ہے جسے کمانے چمکانے اور روشن کرنے کے لیے لوگ طرح طرح کے جتن کرتے رہتے ہیں خود بھی مبتلائے عذاب ہوتے ہیں دوسروں کو بھی مبتلائے عذاب کرتے رہتے ہیں۔ سکندر کو اگر نام کمانے کی دیوانگی لاحق نہ ہوتی تو آرام سے باپ کے بنائے ہوئے محل میں عیش کرتا۔لیکن نہیں اسے تو نام کمانے کا جنون ہوگیا۔ نتیجے میں بہت دور مشرق میں جاکر’’نام‘‘ ہوگیا۔ محمود نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے کس لیے؟ اس لیے کہ بت شکن کا نام کمانا چاہتا تھا۔تیمور بیچارا لنگڑا لنگڑا کر نام کمانے میں لگا رہا۔ایسے سب کو اگر دیکھا جائے تو انھوں نے کیا کمایا؟نام۔نام کے سوا کچھ بھی نہیں

نام میں میرے ہے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

اور یہی اصل حقیقت ہے کہ’’نام‘‘ کے لیے جو ’’کام‘‘ ہوتے ہیں وہ اکثر ’’فتنے‘‘ ہوتے ہیں خونریزیاں ہوتی ہیں، قتل وقتال ہوتے ہیں، ظلم اور ستم ہوتے ہیں۔ ایک سیانے نے کہا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی بیماری یہی ’’نام کمانے‘‘ کی بیماری ہے اگر اسے یہ بیماری لاحق نہ ہو تو اچھا بھلا ’’حیوان‘‘ ہوتا۔ لیکن اس پر ہر وقت یہی دھن سوار ہوتی ہے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں میں اپنا نام اونچا کرے باقی سب اس سے کم ہوں اور یہ سب سے آگے سب سے بڑا اور سب سے اونچا’’نام‘‘ کمائے سب سے ممتاز ہوجائے منفرد ہوجائے۔اور اس کے لیے یہ کبھی دولت۔زیادہ سے زیادہ دولت کماتا ہے۔دولت میں نام نہ کماسکے تو اور بہت سارے سہارے ڈھونڈتا ہے۔کوئی مذہب کا راستہ اختیار کرتا ہے کوئی سیاست کا کوئی تجارت کا۔یہاں تک کہ کسی اور فیلڈ میں نام نہ کماسکے تو غنڈہ بدمعاش بن جاتا ہے۔فاتح بن جاتا ہے پہلوان بن جاتا کھلاڑی بن جاتا، شاعر بن جاتا ہے مصور بن جاتا ہے گائیک بن جاتا۔اس سیانے کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی میدان میں’’نام‘‘ کماکر منفرد نہ ہو پاگل ہوکر دوسروں سے منفرد ہوجاتا ہے

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیا کو

یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

آپ دیکھ رہے ہیں یہ جو بڑے بڑے نام والے لوگ ہیں جن کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے یا خود انھوں نے یا ان کے آبا و اجداد نے چھینا ہے لوٹا ہے چوری کیا ہے۔ان کو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ خود کو جان جوکھم میں ڈالنے کی۔بلکہ بھکاری بننے کی کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود گلیوں کوچوں میں ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔ایک پشتو ٹپہ ہے

عشق چہ راشی سڑے ڑوند شی

محمود باچا د غلامانو غلام کڑینہ

ترجمہ۔عشق جب ہوتا ہے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے محمود بادشاہ کو غلاموں کا غلام بنادیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک بہت بڑا امیر کبیر آدمی تھا جس کی نہ دولت کی انتہا تھی نہ جائیداد کی۔سنا تھا کہ اس کے سوٹرک چلتے ہیں پچاس بسیں اور تقریباً اتنے ہی کوسٹر اور فوروگنیں۔لیکن نام کا مرض تو لاحق تھا اس لیے الیکشن میں کھڑا ہوگیا۔

وہ جس سے ملنے کے لیے بڑے بڑے لوگ ترستے تھے سنا تھا کہ اس کے سوٹ لندن سے سل ہوکر آتے تھے۔ ’’نام‘‘ کمانے کے لیے نکلا تو نوکروں سے بھی گئے گزرے کپڑے پہن کر اور انتہائی ارزاں قسم کے جوتے پہن کر گلیوں کوچوں میں پھرا کرتا۔ لوگوں کے ساتھ زمین پر، کھیتوں میں اور کھلیانوں میں بیٹھ کر جھولی پھیلانے لگا کس لیے؟ دنیا میں انسان کے لیے جو ممکن ہوسکتا تھا وہ سب اس کے پاس تھا پھر کیا کمی تھی؟ کوئی کمی نہیں تھی لیکن اسے انسانوں کی جدی پشتی نام کمانے کی جو بیماری لاحق تھی اس کا علاج آج تک نہ کسی حکیم سے ہوا ہے نہ ہوگا۔کیونکہ’’قناعت‘‘ اندر سے آتی ہے۔باہر سے کبھی نہیں آتی اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے کہا ہے کہ خود ہی خود کو سزا دیتے ہیں مجرم بھی خود، جج بھی خود اور جلاد بھی خود۔ زندگی ایک نعمت ہے لیکن ایسے لوگوں کے لیے

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں