[ad_1]
بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں گھس کر ارکان قومی اسمبلی کو پکڑنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کو استعفیٰ دے دینا چاہیے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ اسپیکر اس سے زیادہ کیا کر سکتے تھے جو انھوں نے کیا کہ انھوں نے معاملات کی تحقیقات کے لیے دو کمیٹیاں بنا دیں اور اسمبلی کے کچھ افراد کو معطل کیا اور پی ٹی آئی کے گرفتار ارکان کے لیے حکم جاری کرکے انھیں قومی اسمبلی میں پیش کرا دیا جب کہ پی ٹی آئی کے اسپیکر اسد قیصر کے دور میں ایک افسر وردی میں اسپیکر چیمبر میں بیٹھ کر چار سال اسمبلی چلاتے رہے تھے اور بل بھی، ان کی مرضی سے ٹیبل ہوا کرتے تھے اور ان کی مرضی سے ہی پاس ہوتے تھے ان کو یہ چیزیں یاد آنی چاہیے تھیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کو یاد دلایا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کا دور بھی یاد کریں جب ان کے اسپیکر مسلم لیگ (ن) کے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے تھے اور عدالتی حکم بھی نہیں مانا جاتا تھا اورگرفتار ارکان پر بے حد سختی ہوتی تھی انھیں جیل میں قانونی سہولتیں بھی نہیں ملتی تھیں اور ان کا بانی آج جیل میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ تمام سہولتوں میں شاہانہ قید کاٹ رہا ہے اور پھر بھی غلط بیانیاں اور جھوٹے الزامات لگا رہا ہے جب کہ (ن) لیگ کے اسپیکر نے پی ٹی آئی ارکان کے آرڈر خود اور فوری جاری کیے۔ ہمارے اور ان کے دور کا یہ فرق بھی پی ٹی آئی کو نظر آنا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن شاندانہ گلزار نے کہا کہ گرفتاریاں پارلیمان کی توہین نہیں بلکہ پاکستان کی پارلیمان پر حملہ ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر داخلہ شیخ رشید اسپیکر ایاز صادق کے اقدامات کی ستائش کرنے کے بجائے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انھیں یاد نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنے دور میں جمہوریت کو خود ننگا کر دیا تھا اور پوری اپوزیشن کے تمام اہم رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں قید کر رکھا تھا اور آج کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اسپیکر اسد قیصر نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور اسیر اپوزیشن رہنماؤں کو قومی اسمبلی اجلاس میں طلب کرنے کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوتے تھے اور نہ ہی پی ٹی آئی رہنما اپنے اسپیکر سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ خواجہ آصف قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کو شرم و حیا یاد دلانے میں مشہور ہیں کہ جب پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اپوزیشن کے خلاف حکومتی مظالم پر خاموش رہتے تھے اور انھوں نے اسمبلی سے استعفے دے کر بھی ساری مراعات وصول کرلی تھیں۔
بانی پی ٹی آئی کو تو بھولنے اور یوٹرن لینے کی عادت ہے اور وہ بھی (ن) لیگی حکومت میں اپنے ارکان کی گرفتاری پر شرم کی بات کر رہے ہیں جن کی اپنی حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ شرم ناک رویہ ہی اختیار کیا ہوا تھا اور اپوزیشن کے بڑی تعداد میں رہنماؤں کو نیب کے ذریعے گرفتار کرا رکھا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت میں سندھ ہاؤس پر اس کے اپنے ارکان نے حملہ اور توڑ پھوڑ کی تھی اور پولیس نے اسمبلی ہاسٹل پر دھاوا بول کر جے یو آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار کیا تھا۔
حکومت ملنے سے قبل 2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ کا گھیراؤ اور حملہ کیا تھا اور گندے کپڑے پارلیمنٹ کے گیٹ پر لٹکائے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ مہینوں اسمبلی سے مستعفیٰ ہو کر گھر بیٹھنے والوں نے اپنی طویل غیر حاضری کی تنخواہیں وصول کرنے میں شرم محسوس نہیں کی تھی اور پارلیمنٹ کی توہین اور بے حرمتی کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑا تھا اور اب پی ٹی آئی کے بانی اور رہنماؤں کو پارلیمنٹ کے احاطے سے اپنے بعض ارکان کی گرفتاری پارلیمان پر حملہ نظر آئی ہے اور انھیں اپنے دور میں پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے تماشے یاد ہیں نہ پارلیمنٹ کی بے حرمتی۔ آج جے یو آئی اور پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن رہنما ہی نہیں حکومتی ارکان بھی پارلیمنٹ میں گرفتاریوں کی مذمت کر رہے ہیں اور سینیٹ میں بھی مذمتی قرارداد منظور ہوئی ہے۔ حکومتی ارکان کے سوا کوئی اپوزیشن لیڈر اسپیکر قومی اسمبلی کے کردار کی تعریف نہیں کر رہا جو سابق اسپیکر اسد قیصر جیسا مجرمانہ کردار ادا نہیں کر رہے بلکہ پارلیمنٹ کے تقدس و احترام کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو میثاق پارلیمنٹ کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ پارلیمنٹ کا وقار آیندہ مجروح نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمن بھی آج ایوان کو تین دن کے لیے بند کرنے کا کہہ رہے ہیں مگر حکومت اور اپوزیشن کو پارلیمان کے خالی ایوان یاد نہیں آ رہے جب کورم نہ ہونے کے باوجود ہر حکومت میں اقلیتی قانون سازی ہوتی آ رہی ہے۔ شیخ رشید جیسے پرانے پارلیمنٹیرین کو کبھی اس وقت جمہوریت ننگی نظر نہیں آئی جب اپوزیشن کے بائیکاٹ پر حکومت اپوزیشن کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر جلد بازی سے ریکارڈ قانون سازی کر لیتی تھی۔ خالی ایوانوں میں کورم کے بغیر چند ارکان کی منظوری سے منظور قوانین پورے ملک پر تھوپے جاتے تھے ،کیا وہ جمہوریت تھی؟ بیرونی قوتوں کی مدد سے بجٹ منظور کرانے والوں کو اس وقت شرم کیوں یاد نہیں آتی تھی۔ نام نہاد جمہوریت پسند ایوانوں میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کیا اس وقت پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہوتی تھی؟ ایوان میں ایک دوسرے پر حملے، ہاتھا پائی، بدنظمی اور ہنگامہ آرائی پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہیں؟ اسپیکر ایاز صادق کی میثاق پارلیمنٹ کی تجویز پر اگر اب بھی اتفاق نہ ہوا تو پارلیمان میں یہی کچھ ہوتا رہے گا اور کچھ زخمی بھی ہو سکتے ہیں، کیا تب پارلیمان کا احترام ہوگا؟
[ad_2]
Source link