15

مال غنیمت کی تاریخ (پہلا حصہ)

[ad_1]

پڑوسی ملک میں ایک امبانی شہزادے کی شادی کے بارے میں آپ نے سن ہی لیا ہوگا جسے دنیا کی مہنگی ترین شادی قراردیاگیا ہے، اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک امبنی شہزادی کی شادی کے بھی بڑے چرچے ہوئے تھے، پاکستان میں بھی کچھ عرصہ پہلے ایک مہنگی ترین شادی ہوئی تھی، تاریخ میں بھی ایسی کئی خاص خاص مہنگی شادیوں کا ذکر آتا ہے۔

خلیفہ منصورکی بیوی ملکہ خیزران کے بیٹے کی شادی میں بھی ملکہ خیزران نے نیاریکارڈ قائم کیا تھا، شہزادوں کی شادیوں میں سونا چاندی اور ہیرے موتی اچھالنا تو عام سی بات تھی لیکن ملکہ خیزران نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈوں کو چکناچور کرتے ہوئے ’’نئی ایج ‘‘ ایجاد کی تھی کہ ہیرے موتیوں کو ایک کاغذ میں لپیٹ کر گولیاں بنائی گئی تھیں اورنچھاور کرنے کے بعد جن جن کو وہ کاغذ کی گولیاں مل گئیں ان میں ہیرے موتی تو تھے ہی ، ساتھ اس کاغذکے پرچے میں جاگیریں، عہدے اور مناصب بھی درج تھے جو پرچہ پانے والے کو ملنا تھے ۔

اب یہ حساب تو کسی نے نہیں لگایا ہے کہ کتنے جاہلوں، پاگلوں اوربھکاریوں کو کیا کیا جاگیریں ، عہدے اورمناصب ملے تھے لیکن یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ چوروں کو ،کوتوالوں اورقاضیوںکے عہدے ہی ملے ہوں گے ، پاگلوں اوراحمقوں کو وزیروں اور والیوں کے عہدے بھی ملے ہوں گے اور آوارہ گرد قسم کے لوگ درباریوں میں شامل ہو گئے ہوں گے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا امبانیوں، ملکہ خیزران یا ٹاٹاؤں کے سوسو سر اورہزار ہزار ہاتھ ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی دولت آجاتی ہے ؟ ملکہ خیزران کا باپ کان کن تھا یا جن بادشاہوں کے خزانوں کاذکر ہوتا ہے انھوں نے ایسا کیا کیا تھا کہ ان کے خزانے لبالب بھر جاتے تھے یہ سب کچھ آخر آتا کہاں سے تھا ؟تو ان تمام باتوں کا اگر ایک لفظ میں جواب دیا جائے تو وہ ہوگا ’’مال غنیمت‘‘ یہ مال غنیمت ہی کی برکت تھی کہ اس زمانے کے بھی اورموجودہ زمانے کے بھی خزانے بھر جاتے ہیں، وہ بھی ان لوگوں کے جو اپنے ہاتھ بھی خود نہیں دھوتے بلکہ دوسروں سے دھلواتے ہیں جو اپنے گلدانوں کے لیے پھول بھی خود نہیں توڑتے۔

اس نام نہاد اشرافیہ کا ذکر میں اکثرکرتا رہتا ہوں جو پندرہ فی صد ہوکر بھی پچاسی فی صد وسائل ہڑپتی ہے اوران پچاسی فی صد کے لیے جو بناتے ہیں، اگاتے ہیں، پیدا کرتے ہیں، فراہم کرتے ہیں ان کو اپنی ہی محنت کا پندرہ فی صد بھی نہیں دیتی اوریہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اوراس کی ’’اے بریف اسٹوری‘‘ کی مختصر تاریخ کچھ یوں ہے ، کہ انسانی تاریخ میں کس طرح نام بدل جاتے ہیں، مقام بدل جاتے ہیں ، حالات بدل جاتے ہیں، وقت اور زمانے بدل جاتے ہیں عقیدے اورنظریات بدل جاتے ہیں، واقعات اورطریقہ ہائے وارادات بھی بدل جاتے ہیں لیکن انسان کی تقدیر نہیں بدلتی ، یوں کہئے کہ آلات قتل بدل جاتے ہیں لیکن قتل جاری رہتے ہیں ۔

میرا ایک پشتو شعرہے کہ

ہم ھغہ قید ھغہ قیدی وی خو زنزیر بدل کڑی

باچادے نہ بدلوی مونگ دے تقدیر بدل کڑی

ترجمہ۔ قید بھی وہی قیدی بھی وہی، صرف زنجیر بدل دی جاتی ہے، اس وقت کہو ’’بادشاہ‘‘ نہ بدلے مگر ہماری تقدیر بدل دی۔

ایک اوربھی قابل توجہ ہے جو پاکستان کی سیاست اورعوام کی کہانی سمجھ لیجیے کہ

باچا ھم ھغسے معصوم اوربے گناہ پاتی شی

خپل گناہونہ ورپہ سرکڑی او’’ وزیر‘‘ بدل کڑی

ترجمہ۔ بادشاہ ویسا ہی معصوم اوربے گناہ رہ جاتا ہے کہ اپنے سارے گناہ اس کے سرڈال کر’’وزیر‘‘ بدل دیتا ہے ۔

یہ قصہ بہت پرانے زمانے سے کچھ معمولی رد وبدل کے ساتھ چل رہا ہے جب لٹیرے نے سوچا کہ بستیوں کو لوٹ کر واپس چلے جانے کے بجائے کیوں نہ ان کالانعاموں کے سرپر مستقل بیٹھا جائے چنانچہ اس نے اپنا نام بدل کر لٹیرے سے محافظ رکھ لیا اورگائے کو کھو کر کھانے کے بجائے دوہ کرکھانا شروع کیا ،یہ محافظ جو لٹیرا ہی ہوتا تھا ایک جمعیت اکٹھا کرکے حکمران بن جاتا تھا اوراپنے ساجھے دار ’’پروہت‘‘ سے خود کو طرح طرح کے مقدس نام دلواتا رہا، دیوتا ، دیوتا زادہ ، ظل اللہ ، ظل الٰہی ، جہاں پناہ، مابدولت ،شاہ شہنشاہ ، مالک ہفت اقلیم و ہفت کشور ، ان داتا ۔ پھر آپس میں بھی ان کی کش مکش ہونے لگی، کوئی کسی نہ کسی نعرے جذبے یا نظرئیے کو لے کر فاتح بن جاتا ، اپنی بستی سے نکل کر دوسری بستیوں کو فتح کرتا اور’’مال غنیمت‘‘ اکٹھاکرتا، ڈاکو اورلٹیرا جس لوٹ کو مال کہتے تھے یہ اسے اپنا حق اور’’ مال شاہی‘‘ کہنے لگا۔

جتنا بڑا گینگ اتنا ہی بڑا فاتح اور اتنا ہی زیادہ ’’مال شاہی‘‘ جسے اس کاکتابی ساجھے دار طرح طرح کے باثواب اورخوبصورت نام دیتا رہتا تھا ۔ یہ دور بھی ایک طویل عرصے تک چلتا رہا اور بہانوں کاکیاہے جب شیر بکری کے بچے کو کھانے کاارادہ کرلیتا ہے تو خوئے بد بہانہ بسیار۔ پھر وہ بکری کے بچے سے کہتا ہے تم میرا پانی گدلا کر رہے ہو ؟ بکری کا بچہ اگر کہے کہ حضور! چڑھاؤ میں تو آپ ہیں۔میں تو آپ سے بہاؤ کاپانی پی رہا ہوں تو پھر کہتا ہے ار ے گستاخ تو تو وہی ہے نا جس نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی؟ بکری کا بچہ کہتا ہے کہ حضورمیری تو کل عمر ہی تین ماہ کی ہے تو سال بھر پہلے آپ کو گالی کیسے دے سکتاتھا ؟اس پر شیر غرا کرکہتا ہے،بے ادب بڑوں سے زبان لڑاتا ہے اور اسے پکڑ کر ’’مال شاہی‘‘ بنا لیتا ہے ، یہ دوربھی چلتا رہا شیر بکری کے بچوں کو ’’مال شاہی‘‘ بناتے رہے ، دارالحکومت دولت سے بھرتے رہے لیکن پھر وقت بدلا کہ وقت ہمیشہ بدلتا رہتا ہے ۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

ملک بنے سرحدیں قائم ہوئیں تو دوسروں پر حملہ کرکے مال غنیمت کا سلسلہ بھی رک گیا ، بہانے اب بھی بنانے والے بنا دیتے ہیں لیکن وہ سلسلہ رک گیا کہ جب چاہا کسی پر حملہ کردیا اورلوٹ لیا، اورمال غنیمت بٹورکر لے گئے لیکن اس ’’گینگ‘‘ کاجو اپنے آپ کو اشرافیہ کہتا ہے مال غنیمت کے بغیرگزارہ بھی نہیں ہوتا۔چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ۔

جب کسی اورملک پر حملہ کرنے کاسلسلہ رک گیا تو اپنے ہی ملک پر ’’حملہ آور‘‘ ہونے کاسلسلہ شروع ہوگیا ، فوج کی جگہ ’’پارٹیاں‘‘ اورہتھیار کی جگہ ’’گفتار‘‘ نے لے لی ، صرف نام اورکچھ اصطلاحات بدل گئیں باقی ’’کام‘‘ وہی ہے مال غنیمت لوٹنا اوربانٹنا اورلٹنے والے بھی وہی پچاسی فی صد خدامارے جو عوام کہلاتے ہیں لیکن ہوتے کالانعام ہی ہیں ۔         (جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں