[ad_1]
پرسوں ، بروز بدھ بتاریخ 18 ستمبر2024، مقبوضہ کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ اِن انتخابات کے پسِ پردہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اپنا نیا کھیل کھیلنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں ۔بھارتی چیف الیکشن کمشنر، راجیو کمار، نے کہا ہے کہ یہ انتخابات تین مراحل (Phases) میں ہوں گے: 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر!وعدے کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان اکتوبر کے پہلے ہفتے کر دیا جائے گا۔مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے 90 ارکان کو منتخب کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے 90لاکھ ووٹرز بروئے کار آئیں گے ، بشرطیکہ بھارتی حکومت کے زیر استبداد اور زیر عتاب کشمیریوں کی اکثریت ووٹ ڈالنے کے لیے راضی ہو جائے۔ کشمیریوں کی اکثریت مگر بوجوہ بھارت سے متنفر ہے۔
اب بھی مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ بھارتی افواج متعین اور قابض ہیں ۔ پچھلے دوبرسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسند کشمیریوں کے ہاتھوں 70 سے زائد بھارتی فوجی مارے جا چکے ہیں ۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں تو خیر لاتعداد ہیں۔ شوقِ شہادت کا یہ سلسلہ مگررُکا نہیں ، تھما نہیں۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات چہ معنی دارد؟
بھارتی حکومت مگر مُصر ہے کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہر صورت ہوں گے ۔ تو کیا یوں بھارت دُنیا کے سامنے لہو لہو کشمیر میں’’جمہوریت‘‘ کا ایک نیا ڈرامہ رچانے کے درپے ہے؟ یہ اسمبلی انتخابات ٹھیک ایک عشرے بعد کروائے جا رہے ہیں ۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ بھارتی آئین میں مندرج مقبوضہ کشمیر بارے خصوصی شِق (370) کو ظالمانہ اور نہائت غیر جمہوری اندازمیں کھرچے ہُوئے پانچ سال گزر رہے ہیں۔
بھارتی حکومت اور انڈین سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے یہ انتخابات یوں منعقد ہو رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی ساری سینئر اور آزادی پسند قیادت(آل پارٹیز حریت کانفرنس) بھارتی جیلوں میں قید کی جا چکی ہے۔ جو کٹھ پتلی البتہ باہر رہ گئے ہیں، اُن میں سے بھی اکثریت اِن انتخابات میں حصہ لینے سے گریزاں ہے۔
نریندر مودی جعلی تفاخر سے کہتے رہتے ہیں کہ انھوں نے آرٹیکل 370 ختم کرکے سبھی کشمیریوں کو رام کر لیا ہے۔ زمینی حقائق مگر اِس دعوے کے بالکل برعکس ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اگرچہ استبدادی ہتھکنڈوں سے مقبوضہ کشمیر کے جملہ میڈیا پر قابو پا لیا ہے۔ اب بمشکل ہی کشمیری میڈیا میں کشمیر بارے اصل تصویر اُبھرتی ہے ۔ لیکن پھر بھی بھارت کے مین اسٹریم میڈیا میں کہیں نہ کہیں سے مقبوضہ کشمیر بارے داستانیں سامنے آ ہی جاتی ہیں۔
یہ داستانیں المناک اور اشکبار ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے 9دن قبل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے ممتاز سیاستدان ، شیخ رشید انجینئر، کو عبوری ضمانت پر رہا کر دیا ۔ اُن کی ضمانت 2 اکتوبر تک ہوگی ۔ رشید انجینئر صاحب بھارتی لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے منتخب رکن بھی ہیں ۔ وہ اپنی جماعت (عوامی اتحاد پارٹی) کے سربراہ بھی ہیں۔ رشید انجینئررواں برس انڈیا کے جنرل الیکشنز میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے ’’بارہ مولا‘‘ سے بھاری ووٹ لے کر کامیاب ہُوئے تھے ۔ انھوں نے جیل میں قید کی حالت میں مقبوضہ کشمیر کی معروف سیاستدان اور سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ، محبوبہ مفتی، کو شکست دی تھی۔
وہ 2019 سے دہلی کی بدنامِ زمانہ ’’تہاڑ جیل‘‘ میں قید ہیں، اِس الزام کے تحت کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ’’دہشت گردوں‘‘ کی فنڈنگ کرنے میں ملوث تھے ۔ اِسی بیہودہ اور بے بنیاد الزام کے تحت مشہور کشمیری لیڈر ، یاسین ملک، کو بھی بھارتی عدالت، دو برس قبل، عمر قید کی سزا سنا چکی ہے ۔اب اِنہی رکن لوک سبھا رشید انجینئر کو دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے 10 ستمبر2024 کوعبوری ضمانت دی ہے، یہ کہہ کر کہ وہ( مقبوضہ) کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں اپنی پارٹی اُمیدواروں کے لیے کمپین کر سکیں۔ اوہو، بھارتی عدالتیں اور حکومت کسی زندانی کشمیری پر اتنی فیاض؟ دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب حکومت نے عجب تماشے لگا رکھے ہیں ۔ اِس ضمانت نے نئے شبہات کو جنم دیا ہے ۔ شایداِسی کارن محبوبہ مفتی نے یہ کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں:’’ رشید انجینئر (مقبوضہ) کشمیر میں بی جے پی کی پراکسی ہیں۔‘‘
ابھی چار ماہ قبل بھارت میں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے عام انتخابات ہُوئے تھے۔اِنہی انتخابات کے نتائج کے تحت مودی جی تیسری بار بھارتی وزیر اعظم بنے ہیں۔ اِن انتخابات میں بھی بھارتی سیاستدان (بطورِ خاص بی جے پی سے وابستہ سیاستدان) پاکستان کو دشنام اور الزام دے کر ووٹ بٹورنے کی سعی کرتے دکھائی اور سنائی دیے۔
افسوس تو یہ ہے کہ اِس لالچی جنگ میں نریندر مودی بھی بدرجہ اتم ملوث دکھائی دیے۔ اور اب مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بھی پاکستان کی مخالفت کے نام پر ووٹ لینے کی جنگ جاری ہے ۔مثال کے طور پر 8ستمبر کو بھارتی وزیر دفاع اور معروف بی جے پی لیڈر، راجناتھ سنگھ، نے جموں کا دَورہ کیا اور کہا:’’ ہم نے تو بھئی اپنے کشمیریوں کو راضی کر رکھا ہے۔
اِنہیں ہم سے اور ہمیں اِن سے کوئی شکائت نہیں ہے۔ مگر پرلی طرف کا (آزاد ) کشمیر شرارتیں کرکے ہمارے کشمیری بھائیوں کو بھڑکاتا رہتا ہے۔ مَیں تو پرلی طرف بسنے والے کشمیریوں کو بھی کہتا ہُوں کہ ہم میں ضم ہو جاؤ۔ ہم خوش آمدید کہنے کے منتظر ہیں۔ اور اے کشمیری بھائیو، آپ نے18ستمبر کو شروع ہونے والے کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں ثابت کرنا ہے کہ بھارت میں رہنا آپ کے لیے کسقدر مفید ہے اور بے پناہ خوشحالی کا باعث۔ آپ بھِک منگے پاکستان کی طرف مت جھانکیے ۔‘‘افسوس73سالہ بڈھے ہندو بھارتی سیاستدان، راجناتھ سنگھ، کو ہنوذ اسلوبِ گفتگو کے آداب نہیں آئے۔
انھوں نے پاکستان کے خلاف جس دریدہ دہنی سے کام لیا ہے،کم سے کم الفاظ میں ہم اِس کی مذمت ہی کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف ہفوات بکنے والے مودی اور راجناتھ سنگھ ایسے بھارتی سیاستدان خوب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جو مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی جعلسازیوں کو دُنیا کے سامنے بے نقاب کرے گا ۔ اور یوں بھارتی عزائم ناکام اور بے نقاب ہو جائیں گے۔ 6 ستمبر2024 کو بھارتی وزیر داخلہ، امیت شاہ، نے کشمیر اسمبلی انتخابات میں کشمیریوں کے دل لبھانے کے لیے جو 25 نکاتی وعدہ نما منشور جاری کیا ہے، اِس میں بھی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کے خلاف زبان درازی کی گئی ہے۔
کیا ایسی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے مجبور باسی 18 ستمبر کو شروع ہونے والے تھری فیز کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں خوشدلی سے حصہ لیں گے؟ اِس سوال کا جواب پاکستان کی ممتاز تجزیہ نگار اور امریکا و برطانیہ میں سفارت کی خدمات انجام دینے والی محترمہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی اِن الفاظ میں دیتی ہے:’’ کچھ ایسے اشارے بھی سامنے آرہے ہیں کہ ( مقبوضہ کشمیر میں) بھارتی حکومت کی پالیسیز کو مسترد کرنے اور اظہارِ عدم اطمینان کے لیے بہت سے کشمیری اِن انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ماضی سے مختلف ہوگا کہ جب انتخابات کو دھوکا قرار دے کر کشمیری عوام نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ چونکہ مطالبات رکھنے کے دیگر تمام راستے بند کیے جاچکے ہیں، ایسے میں بھارتی حکومت کے خلاف ووٹ، کشمیریوں کی آواز بن سکتا ہے۔ بہت سی میڈیا رپورٹس میں کشمیری عوام کے مؤقف کو شامل کیا گیا ہے جن سے یہ تاثر ملا کہ ووٹنگ سے الحاق اور بھارتی حکومت کی پالیسیز کی توثیق ہرگز نہیں ہوگی بلکہ یہ ان کے لیے مزاحمت اور مخالفت رجسٹر کرنے کا ایک موقع ہوگا۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بھارت سمیت دُنیا بھر کو جان لینا چاہیے کہ کشمیری کسی انتخابی جھانسے میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی بآسانی کسی کو اپنی آزادی کا سودا کرنے دیں گے ۔
[ad_2]
Source link