[ad_1]
اسپین نے اسرائیل اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے متعلقہ ایک تقریب کی میزبانی کی، جس میں مسلم و یورپی ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح لائحہ عمل اختیارکرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں دائرکردہ اپنے کیس کے حق میں حقائق اور شواہدکا ایک جامع بیان پیش کرے گا، جس پر تیاری جاری ہے۔ اس اقدام میں کئی ممالک بشمول کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکیہ نے جنوبی افریقہ کا ساتھ دیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی غزہ میں خون بہانے کی پیاس ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اسرائیل پر بھی کسی کا اثر نہیں ہو رہا بلکہ وہ تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑ کر آگے بڑھنے پر تُلا ہوا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے مفادات کے لیے پوری دنیا کے امن و امان کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی، بحری اور بری حملے جاری ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی میں رہنے والے فلسطینی باشندے کسی کونے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دو ریاستی حل میں 1967کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خود مختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل ’’ زمین کے بدلے امن‘‘ کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظورکی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ فارمولا ہمیشہ بین الاقوامی برادری کا بنیادی اتفاق رائے رہا ہے، اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔ چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔
غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر صیہونی فوج کی بمباری پر دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بدترین کارروائیوں کے باعث غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے، انھیں غذائی قلت، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جب کہ غزہ کا 60 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے جسے دوبارہ تعمیرکرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔
انفرا اسٹرکچر کی اِس پیمانے پر تباہی شاید دنیا میں لڑی گئی دوعظیم جنگوں کے دوران بھی کسی ایک علاقے، شہر یا خطے میں دیکھنے میں نہ آئی ہو جو اِس وقت غزہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اب جنوبی حصے رفح میں پناہ لینے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کے خلاف بھی اسرائیل کے زمینی اور ہوائی حملے جاری ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے سخت احتجاج اور مطالبے کے باوجود اسرائیلی ٹینک غزہ کے جنوب میں فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ رفح میں شہری آبادی پرگولہ باری کر رہے ہیں اور جنگی طیارے آسمان سے بم گرا رہے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف ( انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) کے ایک فیصلے میں اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے اور مصر کے ساتھ سرحد کھولنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی عدالت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک واضح چارج شیٹ ہے، دوسری جانب حماس‘ فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ تاہم بعض حلقوں کی طرف سے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے جو بلا جواز نہیں،کیونکہ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو سنا دیا ہے مگر اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کا اختیار نہیں ہے۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے، اور یہ عدالت اپنے فیصلے بین الاقوامی قانون کی بنیاد پرکرتی ہے، جس میں فریقین افراد کے بجائے آزاد اور خود مختار ریاستیں ہوتی ہیں، جن پرکوئی ادارہ یا طاقت ان کی مرضی کے خلاف اپنی رائے یا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتا، البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹرکے ساتویں باب کے تحت رکن ممالک کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں موثر اقدامات کا پابند کر سکتی ہے لیکن فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے عوام کو معلوم ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کردہ ہر ایسی تجویز کو امریکا ویٹو کردے گا، جس کا مقصد اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا دینا ہو۔
فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کررہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے، غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے، سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں، اسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ہر ایک کو اسرائیل ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے اور اتنا ظلم ڈھانے کے باوجود امریکا کی نظر میں فلسطینی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں۔دوسری طرف غزہ میں جاری اسرائیل کی جنگ نے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک مشکل صورتِ حال سے دوچارکردیا ہے اورکئی اسرائیلیوں نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ طے کرنے میں ناکامی اور غزہ تنازع کے بارے میں ان کی حکومت کے طرزِ عمل کے خلاف احتجاج کیا ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کو بہت کم تعداد میں بچایا گیا۔ نیتن یاہو کی مقبولیت میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے تیزی سے کمی آئی ہے۔
اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں، جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے، جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔
سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبرکے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیازکی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالیوں اور غیر انسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیازکے زمرے میں آتے ہیں۔ اسرائیلی حکام کو جبر اور امتیاز کی ایسی تمام اقسام کو ترک کرنا ہوگا جن کی وجہ سے یہودی اسرائیلیوں کو فلسطینیوں پر فوقیت حاصل ہے اور اس حوالے سے نقل و حرکت کی آزادی، اراضی و وسائل کی تخصیص، پانی، بجلی اور دیگر سہولیات تک رسائی اور تعمیراتی اجازت ناموں جیسے معاملات میں برتا جانے والا امتیازی سلوک بھی ختم کرنا ہوگا۔
درحقیقت اسرائیل نے غزہ کو ایک کھلے زنداں میں بدل دیا ہے جس کو چاروں جانب سے بند کر کے نہ تو انھیں غزہ کی پٹی سے نکلنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی انھیں خوراک اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ آج مغربی دُنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایما پر اقوامِ متحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جب کہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن فلسطین میں کم و بیش گزشتہ گیارہ ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زاید اموات پر، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مغربی طاقتوں اور اُن سے وابستہ مذکورہ بالا اداروں کا مصلحت آمیز رویہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
فلسطینیوں پر وحشیانہ بم باری کے علاوہ فلسطین میں موجود اسرائیلی فوج بھی فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فوجی آئے دن نہتے، معصوم مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو جاتے ہیں اور گھروں میں گُھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کو زدوکوب بھی کرتے ہیں۔
غزہ کی متعدد بستیاں مسمارکردی گئی ہیں اور اس دوران معصوم بچے ملبے تلے دب گئے، جب کہ دوسری جانب اسرائیلی فورسز مظلوم فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی میں بھی رُکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ وہاں کی عیسائی آبادی بھی شدید متاثر ہے اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں نے بھی اسرائیل کی مذمت کا آغازکیا ہوا ہے لیکن یہودی لابی امریکا سمیت یورپی ممالک کے اقتدارکے ایوانوں پر غالب ہے، اسی لیے نیتن یاہو بے لگام ہوکر مظالم میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔
اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم پر پاکستان سمیت پوری دُنیا سراپا احتجاج ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دُنیا بھر سے فلسطینیوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود فیصلہ ساز عالمی قوتوں کا ضمیر مستقلاً سویا ہوا ہے۔ ہمیں عالمی قوتوں کا ضمیر جگانے اور مظلوم اہلِ فلسطین کی ہر ممکنہ مالی و اخلاقی مدد کرنی چاہیے۔ عالمی طاقتیں اگر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہی ہیں اور اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھی اہمیت نہیں دے رہا تو اس کے خلاف نیٹو فوجیں استعمال کی جائیں اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے، فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کروائے جائیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پون صدی گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔
[ad_2]
Source link