[ad_1]
کراچی: حکومت سندھ نے سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کے استعمال پر پابندی تو عائد کر دی ہے لیکن کیا اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے یا نہیں، اور صرف سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کے استعمال پر پابندی عائد کرنے سے ماحولیاتی آلودگی میں کتنا فرق پڑے گا؟
ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایکسپریس کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی کے استعمال پر پابندی کا اطلاق کسی حد تک وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں تو ہوا ہے لیکن سندھ سیکریٹریٹ سمیت حکومت سندھ کے دیگر دفاتر میں اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔
سند ھ اسمبلی کے سامنے واقع محکمہ لائیو اسٹاک سندھ کے دفتر کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ سندھ سیکریٹریٹ میں واقع سرکاری دفاتر میں تاحال اس پابندی پر عمل نہیں ہوا ہے،کراچی میں ماحولیات کی بہتری کیلیے کام کرنے والے محمود عالم خالد کے مطابق حکومت کا یہ اقدام ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلیے انتہائی اہم ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرانا لازمی ہے۔
ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے قبل وفاقی حکومت کے دفاتر میں بھی پانی کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں لیکن وہاں بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
اربن لیب آئی بی اے کراچی کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بتایا کہ سرکاری دفاتر میں اگر عملدرآمد ہو بھی جائے تو اس سے ماحولیاتی آلودگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پانی کیلیے پلاسٹک کی بوتلوں کا زیادہ تر استعمال پرائیویٹ دفاتر اور ریسٹورنٹس میں ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ نجی دفاتر اور ریسٹورنٹس میں پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔
امریکی حکومت کے محکمہ کامرس کے زیر انتظام قائم ادارے انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ہفتے87ہزار ٹن خشک کچرا(سالڈ ویسٹ)پیدا ہوتا ہے جبکہ ملک سے سب سے بڑے شہر کراچی میں روزانہ 16,500 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اور ماحولیاتی کارکن آفاق بھٹی نے بتایا کہ شہر میں باورچی خانے کے کچرے کے بعد دوسرے نمبر پر جمع ہونے والا کچرا پلاسٹک ہوتا ہے، کراچی میں پیدا ہونے والے کچرے سے روزانہ صرف 6 ٹن کچرا ری سائیکل کیا جاتا ہے جبکہ یہاں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 7 ہزار ٹن کچرے کو ری سائیکل کر کے دوبارہ استعمال میں لیا جاسکتا ہے لیکن یہاں کام کرنیوالے اداروں میں اتنی صلاحیت نہیں۔
[ad_2]
Source link