[ad_1]
اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 26 میں ارشاد فرمایا ہے کہ “تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے، سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے”۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مولانا فضل الرحمٰن کا گھر پاکستانی سیاست کا مرکز و محور بنا ہوا ہے مگر گزشتہ چند روز سے مولانا کے گھر کے مناظر دیکھ کر میرے ذہن میں بار بار یہ آیت گھوم رہی ہے۔ بیشک اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر ہیں، وہ چاہے تو گداگر کو بادشاہ ، اور بادشاہ کو گداگر بنا دے۔
جسے چاہے عزتوں سے نواز دے اور جسے چاہے ذلتوں کی گھاٹیوں میں دھکیل دے، وہ دینے پر آئے تو کوئی چھین نہیں سکتا، لینے پر آئے تو ساری کائنات کی طاقتیں ملکر اسے روک نہیں سکتی۔ اللہ اکبر کبیرا۔ کل جو اقتدار کے نشے میں دھت تھے جن کے ہاتھ مولانا فضل الرحمٰن کی پگڑی پر ڈالتے وقت نہیں کانپتے تھے‘ آج ان کے پاؤں میں گرے ہوئے ہیں۔ کل تک جو مولانا فضل الرحمٰن کو مولانا نہیں مانتے تھے‘ آج ان کے اقتدا میں نمازیں پڑھ کر ان کو امام مان لیا۔ کل جو ان کے دامن کوداغدار ثابت کرنے کے لیے بہتان تراشی کرنا اپنا حق سمجھتے تھے ‘آج ان کی چوکھٹ پر جھولیاں پھیلائے کھڑے ہیں۔
صرف پی ٹی آئی ہی نہیں وہ حکومتی جماعتیں جو جے یو آئی کے کندھوں پر چڑھ کر ایوان اقتدار پہنچنے کے بعد مولانا کے ساتھ بے وفائی اور بے مروتی پراتراتے تھے آج وہ بھی ان سے تعاون کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیوں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور بڑی سیاسی شخصیات اس مولانا کے در پر سجدہ ریز ہیں، جنھیں خیبرپختونخوا میں دھاندلی کے ذریعے پچھاڑا، ان کا مینڈیٹ چوری کیا، ان کی حقیقی عوامی نمایندگی چھین کر انھیں ایوان کے بجائے میدان اور میدان سے پہاڑ کا راستہ دکھانے کی سر توڑ کوشش کی گئی تھی، پھر ایسا کیا ہوگیا کہ آج اپوزیشن اور حکومت دونوں مولانا فضل الرحمن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ سوچتا ہوں تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ:
وتعز من تشاء و تذل من تشاء
مولانا کو سیاست کا سلطان کہوں یا سیاست کا امام کہ ان کے در پر آنے والوں میں وہ بھی ہیں جنھوں نے ان کی کردار کشی میں ہر حد پار کر دی تھی، وہ بھی ہیں جنھوں نے ان کے مینڈیٹ پرچوری ہوتا ہوا دیکھا اور خاموش ہے، لیکن یہ سب جب ان کے در پر آئے تو مولانا نے کسی پر اپنا دروازہ بند نہیں کیا، کسی سے گلہ نہیں کیا، کسی کو طعنے نہیں دیے، کسی کے ملنے سے انکار نہیں کیا، کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو سینے سے لگایا۔
سب کو خوش آمدید کہا، بات سنی اور ہنستے مسکراتے سب کو اپنے گھر کی دہلیز پر آکر رخصت کیا۔ کوئی کچھ بھی کہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ مولانا سنتے سب کی ہیں، لیکن سوچتے اپنے دماغ اور فیصلے اپنی جماعت کے کارکنان کے جذبات کو دیکھتے ہوئے جماعت کے شوریٰ کے مشورے سے کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان ہی ان کا کل اثاثہ ہیں۔ ایسے مخلص کارکنان کسی کے پاس نہیں، کارکنان کا حلقہ تخلیق کرنا پڑتا ہے لیکن مولانا اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ تمام اسلام پسند خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر اور خانقاہی سلسلے سے ہو، وہ سیاست میں مولانا کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔
عمرانی دور میں جب سب کچھ ایک پیج پر تھا اور ملک کی دو بڑی پارٹیاں سہمی بیٹھی تھیں، یہ صرف مولانا تھے جو اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تو تبدیلی سرکار کی کانپے ٹانگنے لگی تھی، مولانا کا ہرکارکن پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے پیچھے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے تمام ہم عصر سیاستدان ان کے سامنے اطفال مکتب لگ رہے ہیں۔
سیاسی فہم و فراست اور تدبر میں ان کا کوئی ثانی اور مد مقابل نہیں۔ زرداری صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہایک زرداری سب پر بھاری لیکن مولانا بھاری پر بھی بھاری ہیں۔ مولانا سیاست کی کھلی وادیوں کے مسافر ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے دروازے اور آپشن کھلے رکھتے ہیں۔ آج مولانا کے پاس بدلہ لینے کا بہترین موقع ہے وہ گالیاں دینے اور نام بگاڑنے والوں کو فکس اور آستین کے سانپوں، حلیف بن کر حریفوں سے بدتر سلوک کرنے والوں کو بھی سبق سکھا سکتے ہیں، لیکن انھوں نے اعلیٰ ظرفی کی اعلیٰ مثال قائم کرکے ثابت کردیا کہ وہ انتقامی سیاست کا نہیں رواداری کے علمبردار ہیں۔ وہ فیصلے ڈکٹیشن اور ذاتی تعلق کی بنیاد پر نہیں بلکہ جماعتی شوریٰ کے مشورے سے کرتے ہیں۔ انھوں نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ میں آپ کی مرضی سے نہیں چل سکتا اگر آپ میرے مطابق چل سکتے ہیں تو بسم اللہ۔ لگتا تو یہی ہے کہ جو مولانا کی مان کر چلے گا جیت اسی کی ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے مگر مولانا پر الزام لگانے والی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں، کیونکہ حکومت نے جو آفرز مولانا کو دی ہے وہ بہتان تراشوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ کہانی پختونخوا کی گورنری، بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ، چند سینیٹروں اور وزارتوں سے ایوان صدارت تک پہنچ چکی ہے، جن کا دعوٰی ہے کہ وہ باخبر ہے وہ تصدیق کرلیں مگر مولانا نے اقتدار کی سیاست پر “اقدار کی سیاست” کو ترجیح دی۔
مولانا نے اپنی قیمت بتا دی، سود کا خاتمہ، مدارس پر دباؤ کا خاتمہ، قادیانیوں کے ساتھ نرمی کا خاتمہ اور متروکہ املاک وقف بورڈ پر قانون سازی جو یہ قیمت دے سکتا ہے وہ مولانا کو ساری عمر کے لیے خرید سکتا ہے اور جس کے پاس یہ قیمت نہ ہو بہتان تراشی کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دیں تو فائدہ ہوگا۔ حکومت جن آئینی ترامیم کو عجلت میں گزشتہ اتوار کو ہی پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے لیے مولانا کی منتیں کر رہی تھی اسے مولانا نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مجوزہ آئینی بل مؤخر کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اتنی اہم قانون سازی چند گھنٹے میں ممکن نہیں اس پر مزید مشاورت ناگزیر ہے۔ مولانا کے انکار کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی ہوگیا مگر مولانا کے در پر حاضریوں کے سلسلے جاری و ساری ہیں۔ مگر مولانا “چیف جسٹس اور کسی بھی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے معاملے پر دو ٹوک الفاظ میں انکار کر چکے ہیں۔” اور سب کو قابل قبول اصلاحات کی تجویز دی ہے۔
حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے مگر مولانا کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جو قوتیں آج اس آئینی ترمیم کے لیے بے چین ہیں، انھیں یقیناً اپنی غلطی کا احساس تو ہوا ہوگا کہ اگر وہ مولانا کے مینڈیٹ پر ڈاکا نہ ڈالتے، ان کی جماعت کو انتخابی مہم چلانے دیتے، انھیں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حملوں کی آڑ میں نہ روکا ہوتا، ان کی درجنوں کنفرم سیٹیں چھین کر پی ٹی آئی اور دوسری پارٹیوں کی جھولی میں نہ ڈالی ہوتی تو آج مولانا کے سامنے ناک سے لکیریں نہ نکالنا پڑتیں۔
مولانا اس وقت سیاست کے سلطان بن کر پورے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں، جے یو آئی کے پاس سینیٹ کی پانچ اور قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہیں مگر مولانا اپنے درست فیصلوں کی بدولت پوری ملکی سیاست پر حاوی ہیں اور 70 فیصد ووٹوں کے دعویدار عمران خان کے پاس 90 سیٹیں ہیں، وہ خود اور ان کی جماعت کے اہم رہنما جیلوں میں اور ان کی سیاست سولی پر اٹکی ہوئی ہے۔ دوسری طرف فارم 47کی سرکار اقتدار کی ایوان میں بیٹھ کر بھی سولی پر لٹکی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہوش کے ناخن لے کر سلطان سیاست مولانا کی مان کر چلے تو اتفاق رائے سے آئینی ترامیم کرکے ٹکراؤ اور توڑ کی سیاست کو جوڑ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
[ad_2]
Source link