19

ترامیم: مشاورت آئینی تقاضا – ایکسپریس اردو

[ad_1]

دنیا کے مہذب، باشعور، قانون پسند اور باوقار معاشرتی نظام میں جہاں پارلیمانی جمہوری طریقہ ہائے کار کے مطابق کاروبار مملکت چلائے جاتے ہیں، وہاں آئین سب سے مقدس دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ اس کی ایک ایک شق پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

تمام ریاستی ادارے آئینی دائرہ کار میں رہ کر اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور نہ ہی دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت کرتا ہے، نہ تو کوئی ادارہ کسی کو ’’ڈکٹیٹ‘‘ کرتا ہے اور نہ ہی کسی ادارے کا سربراہ کسی دوسرے ادارے کے سربراہ کو دھمکیاں دیتا ہے۔ آئین و قانون کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے، عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے نفاذ میں نہ تو بودی دلیلیں دی جاتی ہیں اور نہ دانستہ تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور نہ ہی دانستہ روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ حکومت اور اس سے متعلقہ تمام ریاستی ادارے عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کو نئے قوانین بنانے، پرانے قوانین میں رد و بدل کرنے یا ان کی تنسیخ کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ اسی طرح ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھی قانون سازی کے اختیارات حاصل ہیں۔ قومی اسمبلی سینیٹ کے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔ طریقہ کار کے مطابق آئین کے لیے ترمیمی بل پر اسمبلی میں سنجیدہ بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔

بحث کے اختتام پر بل پر رائے شماری ہوتی ہے، اگر اسمبلی کے دو تہائی ممبران ترمیم کے حق میں ووٹ دیں تو وہ بل منظور ہو جاتا ہے پھر اسے سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے اگر وہاں سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہو جائے تو پھر اس پر صدر مملکت کے دستخط ہوتے ہیں اور اس طرح آئین میں ترمیم ہو جاتی ہے، اگر کسی بل پر دونوں میں اختلاف ہو تو پھر صدر مملکت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتے ہیں جہاں بل منظور ہو جائے تو صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جاتا ہے، اگر پارلیمنٹ آئین کے منافی کوئی بل پاس کرے تو عدلیہ کو آئینی طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے کر رد کر سکتی ہے۔ آئین میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات بہت واضح ہیں، جن میں کوئی ابہام نہیں ہے اگر کہیں ابہام ہے تو وہ ارباب سیاست کی فہم و فکر میں ہے جو ان کے مفادات کی اسیر ہے۔

شہباز حکومت ’’عدالتی اصلاحات‘‘ کے نام پر جو آئینی ترامیم کرنا چاہتی ہے اس پر اپوزیشن کے تحفظات ہیں۔ آئینی و قانونی ماہرین اور مبصرین و تجزیہ نگار ممکنہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مختلف النوع آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت عدلیہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اپنی مرضی کا آیندہ چیف جسٹس لانے کے لیے بڑی عجلت میں ترامیم منظور کرانا چاہتی ہے۔

اپوزیشن کا موقف ہے حکومت عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے۔ آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے ، مخصوص نشستوں کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے تادم تحریر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بی این پی کے دو اور مولانا فضل الرحمن کے 13 ووٹوں کی مدد سے دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گی۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ یوم جمہوریہ پر (اتوار) کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے آئینی ترامیم منظور کرا لے گی۔ مولانا فضل الرحمن جو کل تک ان کے پاؤں کا کانٹا تھے اور 8 فروری کے الیکشن کے بعد حکومتی تشکیل میں انھیں نظرانداز کر دیا گیا تھا آئینی ترامیم میں حمایت کے لیے اچانک حکومت کی آنکھ کا تارا بن گئے، لیکن یوم جمہوریہ پر صبح سے رات گئے تک مولانا کو منانے کی کوشش کرتے رہے، تاہم مولانا اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ آئینی ترامیم پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو شامل کیا جائے، پورا مسودہ سامنے لایا جائے اس پر بحث کی جائے پھر باہمی مشاورت سے ترامیم منظور کی جائیں جوکہ آئینی تقاضا بھی ہے۔ نتیجتاً حکومت ابھی تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود پارلیمنٹ سے آئینی ترامیم منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں