44

ورزش کے عام مغالطے – ایکسپریس اردو

[ad_1]

طبی سائنس کی جدید تحقیق یہ سچائی آشکارا کر چکی کہ انسان اگر بہترین صحت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اول اسے عمدہ غذا لینی چاہیے، دوم وہ باقاعدگی سے ورزش کرے۔ سو م صحت کو متاثر کرنے والی اشیا اور سرگرمیوں سے دور رہے۔ جو انسان ان تین عوامل پہ عمل کر لے، اسے نہ صرف بہترین صحت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ طویل عمر بھی پاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آخری سانس تک عموماً اس کی صحت عمدہ رہتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ورزش کے سبھی فوائد پانے کے لیے ضروری ہے کہ ورزشوں کو درست انداز میں کیا جائے۔ تبھی ورزشیں کرشمے دکھاتی ہیں۔ صحیح طرح ورزش نہ کرنے سے انسان کو الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ سٹ اپ (sit up) یا اٹھک بیٹھک نامی ورزش بہترین ہے۔ مگر اب ڈاکٹر جانتے ہیں کہ اگر کمر کے نچلے حصے میں درد ہے اور اس عالم میں یہ ورزش کی جائے تو تکلیف بڑھ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کے ارتقا نے شعبہ ورزش کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس دنیا میں ایسے خود ساختہ ماہرین فٹنس عام ہیں جو فرسودہ روایات اور مغالطوں کی ترویج کرتے ہوئے غلط رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے مشوروں پہ مختلف ورزشیں کرنے سے انسان کو عموماً درد و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ان خودساختہ فٹنس گروؤں کے مشوروں پہ آنکھ بند کر کے عمل مت کیجیے بلکہ مستند ماہرین ورزش کی ہدایات پر ہی چلیے۔ ذیل میں ایسے مغالطے پیش ہیں جو عوام میں غلط لحاظ سے مشہور ہو چکے۔

ورزش سے قبل سٹریچنگ (stretching) ضروری

کئی لوگ ورزش شروع کرنے سے قبل جسم کو تیار کرنے کی خاطر بازو اور ٹانگیں اِدھر اْدھر پھیلاتے اور مختلف اعضا کو حرکت دیتے ہیں۔ وجہ یہ قدیم روایت ہے کہ اس طرح جسم ورزش کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ تاہم جدید ڈاکٹر کہتے ہیں کہ سٹریچنگ کا یہ معمول اختیار نہ کیجیے۔ وجہ یہ ہے کہ خاص طور پہ کسی عضلے کو 90 سیکنڈ سے زیادہ عرصے سٹریچ کیا جائے تو اس کی قوت گھٹ جاتی ہے۔ گویا ورزش کے ذریعے جن اعضا کو تقویت پہنچانا مقصود ہے، سٹریچنگ کا عمل ان کی قوت پہلے ہی گھٹا دیتا ہے۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ ورزشوں سے قبل سٹریچنگ نہ کیجیے۔ اور اگر آپ سٹریچنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو طویل عرصہ مت کیجیے۔

ورزش کے ماہرین مشور دیتے ہیں کہ ایکسرسائز سے قبل سٹریچنگ کے بجائے وارم اپ (warm up) ورزشیں کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے رگوں میں خون روانی سے دوڑنے لگتا ہے اور اعضا بھی نرمی سے چست وچالاک ہو جاتے ہیں۔ جسم کی سٹریچنگ کسی اور وقت کر لیجیے۔ بہترین وقت بستر میں جانے سے قبل کا ہے۔ تب اعضا کو دوبارہ قوت پانے کے لیے مناسب وقت مل جاتا ہے۔

عضلات بنانے کے لیے بھاری وزن اٹھائیے

ڈاکٹر بریڈ شینفیلڈ (Brad Schenfeld) اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں۔آپ نیویارک، امریکا میں واقع لیہمین کالج میں ایکسرسائز سائنس کے پروفیسر ہیں۔ اعضا کی نشوونما آپ کی تحقیق کا خاص موضوع ہے۔کہتے ہیں کہ اگر کم وزن کے ساتھ ایک ورزش وقفے وقفے سے کی جائے تو تب بھی عضلات بن جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ورزش کا وقت بڑھانا پڑتا ہے، تبھی مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔زیادہ وزن اٹھا کر کم وقت میں عضلات بڑھانے ممکن ہیں۔ یہ دراصل ذاتی پسند کا معاملہ ہے۔کوئی کم وزن اٹھا کر طویل عرصے ورزش کرنا پسند کرتا ہے اور کوئی الٹ اقدام کرتا ہے۔ نتیجہ مگر یکساں ہی نکلتا ہے۔ ڈاکٹر جیکب سیلن میو کلینک، نیویارک سے بطور سپورٹس میڈیسن فزیشن منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’پوپائے دی سیلر جیسے عضلات بنانے کے لیے بہت سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ عمل راتوں رات ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ اگر آپ طاقتور ہیں توتبھی زیادہ وزن اٹھائیں۔ یوں کم وقت میں اپنے اعضا مطلوبہ حد تک بنا سکتے ہیں۔‘‘

دوڑنے سے گھٹنوں میں درد

لوگوں میں یہ عام خیال جنم لے چکا کہ خاص طور پہ زیادہ دوڑنے سے گھٹنے نہ صرف درد کرتے ہیں بلکہ وہ ہڈیوں کے ایک مرض، اوسٹیوآرتھریٹس(osteoarthritis)کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دوڑ لگاکر ہی انسان اس مرض سے بچ سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر زیادہ وزنی انسان خصوصاً ادھیڑ عمری میں ورزش نہ کرے تو جلد اس کی ہڈیوں کو اوسٹیوآرتھریٹس آن دبوچتا ہے۔

ورزش کی سائنس کے ماہر کہتے ہیں: ’’کئی برس سے لوگوں یہ یہ مغالطہ جنم لے چکا کہ ہمارے گھٹنے ٹائروں کی طرح ہیں … اگر گاڑی بہت زیادہ چلائی جائے تو ٹائر گھس جاتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ ہمارا جسم ٹائروں سے بالکل مختلف ہے۔ اور ہماری ہڈیوں کے جوڑ اپنی مرمت ازخود کرنے کے قابل ہیں، خاص طور پہ انسان اگر ورزش کرے اور ہلتا جلتا رہے۔‘‘

ڈاکٹر جورڈن امریکا کے ممتاز سپورٹس میڈیسن فزیشن ہیں۔ کہتے ہیں:’’یہ بہرحال حقیقت ہے کہ اگر حد سے زیادہ دوڑا جائے یا ورزش کی جائے تو گھٹنے میں درد ہو سکتا ہے یا ان میں کوئی خرابی جنم لیتی ہے۔ لہذا اس درد سے بچنے کے لیے اول زیادہ تیز مت دوڑئیے۔ دوم زیادہ دور تک نہ دوڑئیے۔ یہ دونوںاصول توڑ دینے سے گھٹنوں میں تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر یہ تکلیف ہونے لگے تو فوراً کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کیجیے تاکہ علاج ہو سکے۔‘‘

تندرست رہنے کی خاطر چلنا (Walking)کافی ہے

دنیا بھر میں پیدل چلنا بہترین ورزش تصور کی جاتی ہے اور اب سائنس بھی تصدیق کر چکی کہ اس سرگرمی سے انسان کو طبی فوائد ملتے ہیں۔ مثلاً وزن کم ہوتا ہے۔ امراض ِ قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ذیابیطس جیسی موذی بیماری سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔ نیز کینسر کی بعض اقسام سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ پھر پیدل چلنا ایک آسان ورزش بھی ہے جسے بوڑھے بھی اپنا لیتے ہیں۔ اسی لیے یہ عمل دنیا بھر میں بہت مقبول ہے۔

تاہم ماہرین طب کی اکثریت اب یہ کہتی ہے کہ صرف پیدل چلنے سے انسان مکمل طور پہ فٹ نہیں ہو سکتا۔ اُسے باقاعدہ ورزش بھی کرنا چاہیے۔ نیز ہفتے میں ایک دو بار ویٹ یعنی وزن اٹھانے والی ورزشیں بھی کرنا چاہیں۔ اس کے بعد ہی انسان کامل طور پہ فٹ ہوتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ تیس سال کی عمر کے بعد انسان کے عضلات یا مسلز سکڑنے لگتے ہیں۔انھیں سکڑنے سے روکنے کے لیے عام ورزش کرنا اور وزن اٹھانے والی ورزشیں کرنا ضروری ہے۔ ورنہ انسان ادھیڑ عمری میں ہی سوکھا سڑا دکھائی دینے لگتا ہے۔ عضلات سے محروم ہو کر وہ پھر روزمرہ کے کام بھی درست انداز میں انجام نہیں دے پاتا۔اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدل چلنے کے ساتھ ساتھ عام ورزش بھی کیجیے۔ نیز ہفتے میں کم ازکم ایک بار بیس منٹ تک وزن اٹھانے والی ورزشیں بھی کیجیے۔ یوں بڑھاپے میں بھی عضلات توانا رہیں گے۔

صرف مبتدیوں کو آسان ورزشیں کرنا چاہیے

یہ خیال بھی عام ہے کہ جو مردوزن پہلی بار ورزش کا پروگرام شروع کرتے ہیں، صرف انہیں آسان ورزشیں کرنا چاہیں۔ جو مردوزن طویل عرصے سے ورزش کر رہے ہیں، انھیں یہ عمل زیب نہیں دیتا۔ ماہرین طب مگر اس نظریے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا جسم مختلف دنوں میں ورزش کی مختلف مقدار طلب کرتا ہے۔ لہذا اگر کسی دن آپ تھکن کا شکار ہیں یا آپ پہ ڈپریشن چھایا ہوا ہے تو ضروری نہیں کہ سخت ورزشیں کی جائیں۔آپ آسانی سے کی جانے والی ورزشیں بھی کر سکتے ہیں۔

آسان ورزشیں کرنے کے یہ معنی نہیں کہ آپ کمزور ہو گئے یا مبتدی ہیں یا سخت ورزشیں کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کی ضروریات مدنظر رکھتے ہیں اور اس پہ زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ حد سے زیادہ ورزش کرنا جسم کو طبی مشکلات میں گرفتار کرا سکتا ہے۔ لہذا ضورت کے تحت ورزشوں کے نظام میں تبدیلی لانا ممکن ہے تاکہ آپ میں جسم وروح کے مابین توازن برقرار رہے۔

دوڑ لگانے اور سائیکل چلانے والے

دنیا میں یہ ایک مغالطہ بھی عام ہے کہ جو افراد دوڑ لگاتے اور سائیکل چلاتے ہیں، وہ اگر نچلے جسمانی دھڑ کی ورزشیں نہ بھی کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ورزش کے ماہرین اس سوچ کو بھی غلط قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو نچلے دھڑ سے متعلق ورزشیں بھی کرنا چاہیں تاکہ اس حصے کے اعصاب و عضلات بھی توانا رہ سکیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تیز چلنے اور پیڈل مارنے سے اتنی تحریک جنم نہیں لیتی کہ عضلات کی نشوونما ہو سکے۔ لہٰذا ایسی عام اور وزن والی ورزشیں کرنا ضروری ہے جو مسلز بنا سکیں۔ ان میں اسکواٹ(squats)، لنجز (lunges)، گلوٹ برج(glute bridges) اور پوائنٹرز (pointers) نامی ورزشیں اہم ہیں۔ یہ ہڈیوں کی کثافت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ یوں دوڑنے یا سائیکل چلانے والا مذید طاقتور ہو جاتا ہے۔

دس ہزار قدم روزانہ چلیے

یہ خیال بھی جدید طبی سائنس کی رو سے غلط ہے۔ ماہرین اب کہتے ہیں کہ ایک بالغ انسان روزانہ تین چار ہزار قدم بھی چل لے تو اسے مطلوبہ طبی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پہ اگر تیز پیدل چلا جائے۔دس ہزار قدم روزانہ چلنے سے ٹانگوں میں درد جنم لے سکتا ہے۔

ورزش کے بعد سرد پانی میں غسل

زمانہ قدیم سے لوگ سمجھتے ہیں کہ سخت ورزش کے بعد انسان سرد پانی سے غسل کر لے تو وہ جسمانی سوزش اور زخموں سے بچ جاتا ہے۔ جدید طبی سائنس کے نزدیک یہ بھی غلط نظریہ ہے۔ وجہ یہ کہ تمام جسمانی سوزشیں نقصان نہیں پہنچاتیں۔ خاص طور پہ ورزشوں کے بعد جو جسمانی سوزش جنم لے، وہ مثبت عمل ہے۔ وجہ یہ کہ وہ عضلات پہ دباؤ ڈال کر ان کی نشوونما کرتی ہے۔ اسی لیے انسان ورزش کرنے کے بعد سرد پانی سے غسل کرے تو مسلز کی نشوونما کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا اس عمل سے پرہیز کیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں