19

اسرائیلی جارحیت، خطے کا امن تباہ

[ad_1]

لبنان میں پیجرز دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ میں شریک دیگر کارکنان کے واکی ٹاکیز بھی دھماکے سے پھٹ گئے جس کے نتیجے میں 20 افراد شہید اور 450 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ لبنان کی حکومت اور حزب اللہ نے واکی ٹاکیز دھماکوں کی ذمے داری بھی اسرائیل پر عائد کی ہے، قبل ازیں گزشتہ شب لبنان میں حزب اللہ کے رہنمائوں اور کارکنان کے زیر استعمال 3 ہزار سے زائد پیجرز یکے بعد دیگرے دھماکوں سے پھٹ گئے جس میں 13 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلاشیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ اسرائیل کی حالیہ کارروائی کو ایک علیحدہ قدم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ یہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا تسلسل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ارض فلسطین اور عرب علاقوں میں اسرائیل کا وجود خطے میں جنگ اور بدامنی کا بنیادی سبب ہے۔

اسرائیلی مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے ہمیں فلسطینی آبادی کے سیاسی اور معاشی استحصال میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ فلسطینی آبادی کی نسل کشی اور غزہ کی تباہی کے حالیہ واقعات گزشتہ سال کچھ خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد رونما ہوئے ہیں۔ اپنے مغربی اتحادیوں خاص طور پر امریکا کی جانب سے غیر مشروط حمایت نے اسرائیل کو پورے مقبوضہ علاقے کو اپنی نوآبادی بنانے کے لیے تحرک عطا کیا ہوا ہے۔

ایک کے بعد ایک آنے والی امریکی حکومتوں نے بھی اسرائیل کے جنگی عزائم میں کھل کر اس کا ساتھ دیا ہے۔ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ نے تو اسرائیل کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا حکم دیا اور مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیوں کی تعمیرکی منظوری دی۔ ٹرمپ نے یہودی ریاست کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے دو ریاستی منصوبے کو بھی دفنا دیا اور یوں اسرائیل کے جنگی عزائم میں مزید اضافہ ہوا۔

ٹرمپ نے کچھ مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے راغب کیا جس سے اسرائیل کو اپنے نوآبادیاتی قبضے کو مضبوط کرنے کا حوصلہ ملا۔ جیسا کہ متوقع تھا کہ نئی امریکی حکومت کے آنے سے بھی اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت میں فرق نہیں آیا۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کا نقطہ نظر کئی حوالوں سے ٹرمپ انتظامیہ سے بہتر ہے لیکن پھر بھی یہ اسرائیل کی تازہ جارحیت اور غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل پر شرمندہ دکھائی نہیں دیتی۔

جب اسرائیلی طیارے غزہ کی شہری آبادی پر بمباری کر رہے تھے اس دوران امریکا نے جنگ بندی کروانے کی کوشش تو دُور اس جارحیت کی مذمت تک نہیں کی (بعد میں صدر بائیڈن نے ’جنگ بندی کی حمایت‘ کا بیان جاری کیا)۔ امریکا اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے میں بھی رخنہ انداز ہوا جس سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کے لیے مزید وقت مل گیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے جنگ بندی سے متعلق سیکیورٹی کونسل کے بیانات کو بھی روک دیا۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ فریقین کوکرنا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس بیان کا یہ مطلب ہے کہ فوجی کارروائیوں کو روک کر اس بحران کا حل تلاش کرنے میں اسرائیل کے لیے کوئی فائدہ موجود نہیں ہے۔

دنیا میں پاکستان اور سعودی عرب سمیت چند ہی ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکا تھا، سعودی عرب کی طرف سے گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا عندیہ مل رہا تھا کہ سات اکتوبر کا واقعہ ہوگیا، اب سعودی عرب یہ واضح کرچکا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک معمول پر نہیں آ سکتے۔ امریکا فلسطین میں جنگ بندی کے معاملے میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے، اس کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوجائیں۔

سات دہائیوں سے زائد عرصے سے خطے میں عدم تحفظ، عدم استحکام اور نقل مکانی کا باعث بننے والی یہ ریاست، اب نہ صرف امن کی ساتھی نہیں ہو سکتی بلکہ جہاں بھی جاتی ہے، اس کے استحکام اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔صہیونی ریاست کے عزائم ابتدا ہی سے توسیع پسندانہ تھے، وہ اسی لیے شروع سے آج تک فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے اور نہتے فلسطینی جب مزاحمت کرتے ہیں تو ان پر وحشیانہ انداز میں بم باری کردی جاتی ہے۔ اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کُل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔

سازشوں، دھونس اور دھمکی سے قائم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست اور فرزندِ زمین، یعنی فلسطینیوں کے درمیان جو کش مکش کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس سے عالمی برادری بہ خوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ناجائز حمایت ہے۔

اس حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر کثیر الاقوامی تجارتی ادارے، بینکس، دیگر مالیاتی ادارے اور ذرائع ابلاغ کے زیادہ تر بڑے ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ پھر یہ کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور عربوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں امریکا کے لیے پولیس مین کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہودی امریکا اور یورپ کی معیشت اور سیاست پر بھرپور کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیش تر ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مالی، سیاسی اور ابلاغی اعتبار سے ایسے طاقتور غنڈے کو کون ناراض کرناچاہے گا؟
رواں برس چار مارچ کو یہ خبر آئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر، فتائو بن سودا نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔ فتائو بن سودا نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران تیرہ جون2014 سے اب تک کے اسرائیل کے زیرِ قبضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔ عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں اور اُن خِطوں کی سرزمین پر نسل کُشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف معاہدہ روم کے مطابق کارروائی کرے، جنھیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔

عالمی عدالت کی تشکیل کی بنیاد معاہدہِ روم ہے، لیکن اسرائیل نے کبھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی، تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے2015 میں فلسطینیوں کے الحاق کی توثیق کردی تھی۔مشرقی تیمور میں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادری نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔ ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستوں کے دبائو سے زیادہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکائو ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے پہلی مرتبہ ریاستی مفادات اور عوامی جذبات میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے واضح اہداف کے عدم حصول کے باوجود اسے جنگ بندی پر رضا مند ہونا پڑا ۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جانب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

اسرائیل فلسطینیوں پر بدترین جارحیت کا مرتکب ہے۔ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین بھی اس کی سفاکی، درندگی اور بدترین مظالم سے محفوظ نہیں، عرب خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں، ان تمام حقائق کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے، اس کے جارحانہ عزائم ظلم، سفاکی، درندگی پر خاموش ہیں۔ ایسے میں عالمی امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ امید کی کرن یہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں فلسطینیوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن کیا اس سے اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کو روکا جاسکتا ہے؟ بلاشبہ فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں لیکن انھیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت درکار ہے، اگر اسرائیلی جارحیت نہیں رکتی اور فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر خطے میں امن برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں