[ad_1]
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتی کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چناں چہ اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: (اے پیغمبرؐ!) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتار دیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔‘‘
دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں کروڑوں مساجد کے میناروں سے اﷲ کی واحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور اربہا مسلمان نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں۔ غرض یہ کہ اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔
خالق کائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں بل کہ آپ ﷺ کو حوض کوثر عطا فرما کر قیامت کے روز بھی ایسے بلند و اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کو حاصل ہے، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: (اے پیغمبرؐ!) ’’یقیناً ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پروردگار (کی خوش نودی) کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ یقین جانیے تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے۔‘‘ (یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی) (سورۃ الکوثر)
کوثر جنت کے اُس حوض کا نام ہے جو حضور اکرم ﷺ کے تصرف میں دی جائے گی اور آپؐ کی امت کے لوگ قیامت کے دن اس سے سیراب ہوں گے۔ حوض پر رکھے ہوئے برتن آسمان کے ستاروں کے مانند کثرت سے ہوں گے۔ اﷲ تعالیٰ نے ناصرف زمین میں بل کہ آسمانوں پر بھی اپنے نبیؐ کو بلند مقام سے نوازا ہے، چناں چہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ نبی (ﷺ) پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود و سلام بھیجا کرو۔‘‘ (الاحزاب) اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکر فرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجا کریں۔
حضور اکرم ﷺ کا فرمان اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ کیسا عالی شان مقام حضور اکرم ﷺ کو ملا کہ آپؐ کا کلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: ’’اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘ (سورۃ النجم)
حضور اکرم ﷺ لوگوں کی ہدایت کی اس قدر فکر فرماتے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: (اے پیغمبرؐ!) ’’شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔‘‘ (سورۃ الشعراء) ہمارے نبی کافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش فرماتے، لیکن آج بعض مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو کافر اور مشرک قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔
رب العالمین نے اپنے نبی کو رحمۃ للعالمینؐ بنایا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے، مفہوم: ’’اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء) جس نبی کو سارے جہاں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو، اس نبیؐ کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ہمیشہ امن و امان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔
آپؐ نبی ہونے کے ساتھ خاتم النبیینؐ بھی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے جاری نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہوگیا، یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: (مسلمانو!) ’’محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)
حضور اکرم ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، متعدد آیا ت میں اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی عالمی رسالت کو بیان کیا ہے، یہاں صرف دو آیات پیش ہیں، مفہوم:
(اے رسولؐ! ان سے) ’’کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اﷲ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔‘‘ (الاعراف) اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور (اے پیغمبرؐ!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خُوش خبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔‘‘
حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بنی نوع انسان کے لیے مثال ہے، چوں کہ آپ ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، اس لیے آپ ﷺ کی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنائی گئی، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اﷲ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘ (الاحزاب) حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نمونہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی سیرت پر عمل کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے اسوہ میں دونوں جہاں کی کام یابی و کام رانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمان الہٰی ہے: (اے پیغمبرؐ! لوگوں سے) ’’کہہ دو کہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘ (آل عمران)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سیکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کریمؐ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ ان سب جگہوں پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی ﷺ کی اطاعت کرو۔ غرض یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
قرآن کے مفسر اول حضور اکرمؐ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ (سورۃ النحل)
فرمان الٰہی ہے، مفہوم: ’’یہ کتاب ہم نے آپ (ﷺ) پر اس لیے اتاری ہے تاکہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل)
اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرما دیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺ ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عاید کی گئی کہ آپؐ امت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام و مسائل تفصیلاً بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعے قرآن کریم کے احکام و مسائل بیان کرنے کی ذمے داری بہ حسن خوبی انجام دی۔ تاریخ کا سب سے طویل سفر حضور اکرم ﷺ کے نام ہے، تاریخ کے سب سے لمبے سفر کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ الاسراء) میں بیان فرمایا ہے جس میں آپؐ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔
اﷲ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺ سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصے میں نماز تہجد پڑھا کریں، مفہوم: ’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم، یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔‘‘ ( سورۃ المزمل) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اﷲ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبرؐ!) ’’تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرامؓ) میں سے بھی ایک جماعت۔‘‘ (ایسا ہی کرتی ہے) اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے نبی کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: اور یقیناً تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق فرمایا:
’’آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ قیامت تک آنے والے تما م انسانوں کے لیے نبی و رسولؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں، اور نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم کردیا گیا ہے، یعنی اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، یہی شریعت محمدیہؐ (یعنی علوم قرآن و حدیث) کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے۔ اتنے عظیم و بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، آپ ﷺ کی زندگی کا بیشتر حصہ تکلیفوں میں گزرا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ عالمی رسالت کی اہم ذمے داری کو استقامت کے ساتھ بہ حسن خوبی انجام دیتے رہے۔
آپؐ کی عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت سارے انسانوں کے لیے نمونہ ہے۔ ہمیں حضور اکرم ﷺ کے اسوہ سے یہ سبق لینا چاہیے کہ گھریلو، معاشرتی، ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہم اپنے نبی ﷺ کے طریقے پر اسی وقت زندگی گزار سکتے ہیں جب ہمیں اپنے نبی ﷺ کی سیرت معلوم ہو، لہٰذا ہم خود بھی سیرت کی کتابوں کو پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی سیرت نبویؐ پڑھانے کا اہتمام کریں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے نقش قدم پر زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین
[ad_2]
Source link