10

مولانا مودودی کیا تھے؟ – ایکسپریس اردو

سید ابوالاعلی مودودی کون تھے؟ انھیں بچھڑے اب تقریباً 45 برس ہوتے ہیں۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد تو ان کے مقام اور خدمات کو درست تناظر میں دیکھ لیا جائے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی طبقات اس فورم پر اپنے بزرگوں اور قائدین کی عظمت کے گن گاتے ہیں، بالکل اسی طرح اب مولانا مودودی کے لیے القابات استعمال کیے جانے لگے ہیں جیسے امام العصر، مجدد اسلام اور فاتح تختہ دار وغیرہ۔ اس قسم کے القابات پڑھ کر ان کے لیے بھی خطیب اسلام، واعظ شعلہ بیاں قسم کے بزرگ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔

کیا واقعی مولانا مودودی ایسے تھے اورکیا وہ اپنے بارے میں وہ اسی قسم کا تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے؟ مولانا مودودی جن دنوں اپنے ناقدین کی تنقید کا بدترین نشانہ تھے، کچھ لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مجدد یا مہدی بننا چاہتے ہیں جس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے۔

مولانا کا یہی مزاج تھا۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ اس عہد میں ان کے رفقا اور جماعت کی قیادت نے بھی انھیں القابات دینے سے گریز کیا۔ سید مودودی جیسی شخصیات کے بارے میں اس طرز عمل سے گریز اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر اور سیاسی کردار کی وجہ عمومی دینی شخصیات سے مختلف ہوتی ہیں لہٰذا انھیں جب اس قسم کے القابات دیے جاتے ہیں تو ان کی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کے ہاں ضد پیدا ہو تی ہے اورماحول خراب ہوتا ہے۔ اسی طرح زیر بحث شخصیت بھی متنازع ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مداح جس شخصیت پر فدا ہوئے جاتے ہیں، وہ خود اس کے مقام اور مرتبے سے ہی واقف نہیں ہیں۔ تاریخ میں ایسی بے شمار شخصیات موجود رہی ہیں جنھیں کوئی لقب نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کا نام اور کام زندہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات القابات اور ٹائٹل کسی شخص اور اس کی خدمات سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی کیا تھے اور ان کا مرتبہ کیا ہے؟ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے۔ مولانا مودودی کو سمجھنے کے لیے سرسید احمد خان اور ان کے سب سے بڑے نظریاتی حریف علامہ شبلی نعمانی کے درمیان اختلاف کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ برصغیر کے ان دو طاقت ور نظریاتی دھاروں کے ہوتے ہوئے اقبال نے ایک عظیم مقام کیسے حاصل کیا؟

سرسید بہت بڑی شخصیت ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا اور مذہب اور عقل کے ربط باہمی سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کی تعبیرات ٹھنڈ ے پیٹوں برداشت نہیں کی گئیں۔ یہ فطری تھا۔ ان کے ردعمل میں علامہ شبلی نعمانی سامنے آئے۔۔ ان کا نقطہ نظر مختصر ترین الفاظ میں یہ تھا کہ دنیا کی ترقی یہی ہے جو ہمیں بتائی جا رہی ہے لیکن مسلمان کی ترقی یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے عہد میں صرف معنوی انداز میں نہیں بلکہ عملی اعتبار سے بھی سانس لے۔ گویا یہ قدیم اور جدید کا فرق تھا۔

مسلم برصغیر میں یہ نہایت نازک دور تھا جس میں مسلمان اس مباحثے میں پھنس کر رہ گئے۔ اقبال نے مسلم بر صغیر کو اس نظریاتی کشمکش سے نکالا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ذہنی اعتبار سے صحابہ کے عہد میں سانس لینا تو عین سعادت ہے لیکن دور جدید کے چیلنجز اور علمی سوالوں کا جواب کیا ہے؟ پھر انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے عین مطابق تھی جس میں فرمایا ہے کہ حکمت مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے، یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کر لیا جائے۔ ان کا نظریہ یہ تھا جدید ترین تعلیم حاصل کی جائے حتی کہ فقہ اسلامی کی تشکیل جدید بھی کی جائے لیکن اپنی اصل کو نہ چھوڑا جائے۔

قیام پاکستان کا معجزہ ہو یا بیسویں صدی کی جدید اسلامی تحریکیں، یہ سب اسی نظریے کا نتیجہ ہیں۔ ان کی فکر کا ایک اور اہم نکتہ ان کا خطبہ الہٰ آباد ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ امپریلزم یعنی ملوکیت سے نجات میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری نسل انسانی کی بقا ہے۔ خطبہ الہ آباد کے بعد تو اقبال کو زیادہ وقت نہ ملا لیکن ان کے بعد بھی یہ فکر آگے بڑھتی رہی۔یہ کام مولانا مودودی نے کیا۔ مولانا مودودی اقبال کے جونیئر ہم عصر تھے جن کا دور قیام پاکستان کے بعد شروع ہوتاہے۔

ان کے اپنے مکتبہ فکر کے مطابق تفہیم القرآن مولانا مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس میں انھوں نے اللہ کی آخری کتاب کو جدید زبان میں اپنے عہد کے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور نہ صرف پاکستان، نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر نظریاتی منظر نامہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح اسلام کی مبادیات کے بارے میں دینیات اور خطبات نامی کتابیں لکھ کر عام پڑھے لکھے آدمی کی ضرورت پوری کی ۔ کچھ ایسا معاملہ ہی ان کے دیگر تحریری اثاثے کا ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ ہے۔

اس کتاب میں انھوں نے مسلم امہ کے سب سے بڑے مسئلے کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ جو ایک عام خیال ہے کہ مسلمان دنیا کو کوئی مستحکم سیاسی نظام دینے میں ناکام رہے ہیں، اس کا سبب کیا ہے اور ایسی کیا حکمت عملی ہے جسے اختیار کر کے اس کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ کتنا بڑا کام تھا؟ اس سلسلے میں پروفیسر فتح محمد ملک کا تبصرہ بہت وقیع اور توجہ طلب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں ملوکیت یا امپریلزم کے جس استبداد کی نشان دہی کی تھی، مولانا مودودی نے ‘ خلافت و ملوکیت ‘ لکھ کر اسی کام کو آگے بڑھایا۔ یہاں یہ امر ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ بات پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کہہ رہے ہیں جو نظریاتی اعتبار سے ہمیشہ اُن کے متوازی دھڑے میں شامل رہے ہیں۔

کیا مولانا مودودی ملوکیت کے موضوع پر نظری کام کر کے مطمئن ہو گئے جیسا عام طور پر دانشوروں اور مفکروں کا طریقہ ہوتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ وہ اپنے وقت کے طاغوت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں ہر آمریت کوعملی طور پر چیلنج کیا اور ہمیشہ جمہوری جدوجہد میں شریک رہے۔ یہاں تک کہ سزائے موت کی پروا بھی نہ کی۔ تاریخ یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مارشل لا کی فوجی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی تھی۔ انھوں نے سب سے بڑی سزا قبول کر لی لیکن جبر کے سامنے سر نگوں نہیں ہوئے۔

نظریاتی میدان میں جہاں ان کی ایک عظیم خدمت اسلام کے سیاسی نظام کی طرف راہ نمائی ہے تو وہیں انھوں نے اسلام کے نظریہ جنگ و جدل کے ضمن میں بھی وہ بات کہی جس کی سمجھ دنیا کو آج تقریباً پون صدی کے بعد آ رہی ہے۔ ان کی خدمات کے اس پہلو کو بھی تاریخی تسلسل میں دیکھنا ضروری ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں تحریک مجاہدین جیسے واقعات کے بارے میں اقبال کی رائے یہ تھی کہ یہ اپنی قوت زائل کرنے کے مترادف ہے جس سے منزل مزید دور ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہی سبب تھا کہ اقبال نے مسلمانوں کو سیاسی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔قیام پاکستان کے بعدکشمیر میں جنگ کا پہلا مرحلہ 1948 میں آیا۔ مولانا مودودی نے اس وقت کہا کہ اگر ریاست اس جنگ کو تسلیم کرتی ہے تو یہ جہاد ہے ورنہ نہیں۔ جہاد افغانستان نامی واقعہ بھی ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کے اپنے حلقے کے بہت سے لوگ اس جنگ میں نجی یا تنظیمی حیثیت سے شریک ہونا چاہتے تھے لیکن مولانا مودودی نے اسے کبھی درست قرار نہ دیا۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے اس کی بیشتر تفصیلات اپنی کتاب ’تصریحات‘ میں لکھ دی ہیں۔ مولانا مودودی کا ذہن جنگ و جدل کے معاملے میں بھی ریاست کے نظام کی طرح بالکل واضح تھا۔ وہ کسی پرائیویٹ شخص یا گروہ کو ہتھیار اٹھانے کا حق نہیں دیتے تھے۔ ان کا یہ موقف بھی آج بالکل درست ثابت ہو گیا کہ پرائیویٹ جہاد دراصل فساد کا دروازہ کھولنے والی بات ہے۔

مولانا مودودی کے ان دونوں نظریات کا دائرہ کسی خطے تک محدود نہیں، عالمگیر ہے۔ ہمارے عہد میں مسلمانوں نے جہاں مار کھائی ہے، اس کا سبب ان کے ان ہی دونوں نظریات سے روگردانی تھی۔ اب مسلمانوں میں عسکریت سے جان چھڑانے کے ضمن میں نئی سوچ اور بیداری پیدا ہو رہی ہے تو اس کی بنیاد بھی ان ہی کا نظریہ جہاد ہے۔ نئی سوچ کامیاب ہوتی ہے اور مسلمان مسائل کی دلدل سے نکل کر عروج پاتے ہیں تو یقیناً تاریخ انھیں محسن کے طور پر یاد کرے گی۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں