[ad_1]
پاکستان دالوں کی پیداوار میں ایک اہم ترین ملک ہے اور بعض اوقات کئی دالوں میں خودکفالت بھی حاصل کرلیتا ہے اور آیندہ برس یہ اعزاز بھی کھو دیتا ہے، وجوہات بہت سی ہیں۔ مثلاً ستمبر 2021 میں حکومت نے فخریہ اعلان کیا کہ مونگ کی دال کی پیداوار میں پاکستان خودکفیل ہوگیا ہے پہلا اندازہ اس وقت لگایا گیا کہ مونگ کی ملکی پیداوار 2 لاکھ 53 ہزار ٹن رہی جب کہ ملکی ضرورت ایک لاکھ 80 ہزار ٹن ہے لیکن 2021 کے آخر تک بھی ایسی کوئی بات سامنے نہ آسکی کہ کہا جائے کہ طلب کے مقابلے میں رسد میں یعنی پیداوار میں اضافہ ہوگیا ہے تو ملکی معاشی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہ سہی البتہ چند مواقع جب بھی دستیاب ہوتے رہے ان میں ایک موقعہ اب ایسا آگیا کہ 2021 کو رخصت کرتے ہوئے یہ خوشخبری مل جاتی کہ دال مونگ بہت سستی ہوگئی ہے۔
مونگ کی دال مختلف دالوں میں بہت ہی پسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ کئی سال قبل کی بات ہے جب فارمی مرغیاں ایک خاص قسم کی بیماری میں مبتلا ہوگئی تھیں تو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر مختلف دالوں کی ڈشز بھی سجائی جاتی رہی ہیں۔ کیونکہ ان دنوں یہ مشاہدہ کیا جاتا رہا کہ لوگ فارمی مرغی کی مختلف اقسام کی ڈشز کو چھوڑ کر دال مونگ کی ڈش پر لپکتے دیکھے گئے ہیں۔
لہٰذا باورچی حضرات نے بھی اس ڈش پر توجہ صرف کی اور طرح طرح کے مسالوں سے مزین کرکے ایسی ایسی دال کی ڈشیں بنا ڈالیں کہ مہمان انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ متروک ہوتا گیا۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں دال مونگ کو مختلف طریقوں سے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور تقریباً سارا سال اس کا کھانے میں استعمال جاری رہتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت دالوں کی کھپت غریب گھرانوں کے ساتھ امیر گھرانوں میں بھی وسیع پیمانے پر ہونے لگی ہے۔ غریبوں کے ہاں دال اور اس کا پتلا شوربہ ان کے قلوب کے لیے تفریح طبع کا سامان مہیا کر دیتا ہے کیونکہ پیالے میں پتلا شوربہ بھرا ہوتا ہے اور اس کی تہہ میں چند دانے دال کے موجود ہوتے ہیں۔ بس بچے ان کی تلاش میں روٹی کے نوالے بنا کر تہہ تک لے جاتے ہیں اور دال کے چند دانے پکڑ لاتے ہیں اور دوسرے بھائی بہنوں کو دکھا دکھا کر فخریہ بتاتے ہیں کہ ’’ میں نے دال کھائی ہے۔‘‘ اور جن امیر گھرانوں کو شیف میسر ہے وہ لوگ آج کل دال پر زیادہ سے زیادہ مسالوں کے استعمال کا طریقہ اپنا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تازہ ترین امپورٹ رپورٹ کے مطابق محض جولائی اور اگست 2ماہ میں 34 ہزار 3 سو میٹرک ٹن مسالہ جات کی درآمد ہوئی جب کہ گزشتہ برس انھی دو ماہ میں محض 20ہزار 5 سو میٹرک ٹن مسالہ جات کی درآمد کے ساتھ 67 فی صد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔
یہ اچھا خاصا اضافہ ہے جب کہ دالوں کی درآمد کے اعداد و شمار کچھ اس طرح سے ہیں کہ موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ایک لاکھ 81 ہزار میٹرک ٹن دالوں کی درآمد ہوئی جس پر 37 ارب 5 کروڑ روپے صرف ہوئے جب کہ ان دو ماہ میں مسالہ جات کی درآمد پر 11 ارب روپے خرچ کیے گئے جب کہ گزشتہ سال کے پہلے 2 ماہ کے اخراجات پر آنے والے مسالہ جات 7 ارب 12 کروڑ روپے کے تھے۔ایک بات جو کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ گزشتہ مالی سال کے 2 ماہ کی نسبت اس مرتبہ دالوں کی درآمد میں 33 فی صد کمی ہوئی ہے۔ معاملہ تھوڑا سا اس لیے قابل توجہ ہے کہ دالوں کی درآمد کنٹرول کرتے کرتے ایسا نہ ہو کہ قیمت کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ فی الحال اس قسم کی خبریں بازگشت نہیں کر رہی کہ دالوں کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
حکومت کو ہر دم دالوں کا اس کی پیداوار کا اس کی کھپت کا درست سے درست اندازہ لگاتے رہنا چاہیے کیونکہ ذرا سی غفلت کے باعث دالوں کی قیمت میں یکایک اضافہ ہو جاتا ہے اور جب ایک مرتبہ اضافہ ہو جائے تو کمی کو ناممکنات میں گنا جاتا ہے۔پاکستان بھی دیگر پڑوسی ممالک کی طرح دالوں کا اہم برآمدی ملک بن سکتا ہے جیساکہ چین اور بھارت ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بھارت نے بڑی مقدار میں دالیں برآمدکیں، حالانکہ وہاں دالوں کی کھپت بھی بہت زیادہ ہے لیکن ملکی ضرورت کے مقابلے میں زائد پیداوار کے باعث بھارت دنیا میں دالوں کا اہم برآمدی ملک ہے، اگرچہ کچھ اقسام کی دالیں اور چنے وہ امپورٹ بھی کرتا ہے۔ہم دالوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ جس طرح سے مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور لوگوں کی قوت خرید شدید متاثر ہو رہی ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کے باعث ہر گھر کا بجٹ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
ملک بھر میں چکن، گائے کا گوشت اور بکرے کے گوشت کے نرخ اب کسی کے دسترس میں نہیں رہے، ایسے میں سبزیوں کے نرخ کو اس کی نزاکت، جلد خراب ہونے، سیلاب سے پوری فصل کے متاثر ہونے کے باعث سبزیوں کے نرخ عموماً آسمان سے ہی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں صرف دال کا سہارا باقی رہ جاتا ہے۔
اس کی امپورٹ ملک بھر میں اس کی پیداوار اور دیگر امور کو مدنظر رکھتے ہوئے دال کی قیمت پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ملک بھر میں دالوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے ہر ممکن طریقے سے عملدرآمد کرے۔ ماہرین غذائیات کا یہ کہنا ہے کہ دالیں غذائیت کے اعتبار سے گوشت کا نعم البدل ہونے کے ساتھ پروٹین کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی دالوں کی اہمیت اس کی غذائی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے 2016 کو دالوں کا سال قرار دیا تھا۔
[ad_2]
Source link