8

الفاظ کا سفرنامہ ، لک (پہلا حصہ)

یہ تو ہرکسی کو پتہ ہے کہ ’’لک‘‘ انگریزی میں قسمت کو کہتے ہیں لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ لفظ کہاں پیدا ہوا، کس زبان کا ہے اورکن کن راستوں پر سفر کرتا ہوا ہندی الفاظ لکش ( مقصد ومنزل) لکشمی ، لکشمن ،لاک لکڑی ، لکیروں وغیرہ میں ڈھلتا رہا اورانگریزی لک ، لکس ،سے اس کا کیا رشتہ ہے اورمزید حیران کن بات یہ کہ کلے ، کلچر ، کلدہ، کالڑی اورعربی خالد، خلدہ ،خلود سے بھی اس کارشتہ ہے۔

مشہوربنگالی ماہرلسانیات سینتی کمار چیڑجی نے اپنی کتاب ہماری آریائی زبان (ترجمہ اردو عتیق مہدی)میں لکھا ہے کہ ہند میں وارد ہونے والے پہلے آباد کار اور زراعت کار لوگ ’’کول ‘‘تھے جنھیں انگریزی میں مجموعی طورپر ’’آسٹرک‘‘ کہاجاتاہے ،یہ بہت سارے قبائل تھے اوردراوڑوں سے بھی پہلے ہوا کرتے تھے ان میں اور بعد میں آنے والے دراوڑوں میں فرق اتنا ہے کہ آسٹرک چھوٹی چھوٹی بستیاں بسا کر صرف زراعت کیا کرتے تھے بلکہ زراعت کے آفریدہ گار تھے جب کہ دراوڑ پھر بڑی بڑی بستیاں اورشہر بسانے لگے تھے کیوں کہ زراعت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے کچھ اورپیشے اورہنر بھی اپنائے تھے ، دراوڑوں کے آثار موہن جو ڈارو ، ہڑپہ ، رحمان ڈھیری ( ڈی آئی خان) مہرگڑھ ( بلوچستان) اورکالی بنگن (راجستھان) میں ملے ہیں ۔

لیکن ان کے پیش رو کول یاآسٹرک لوگوں کے بہت کم آثار ملے ہیں البتہ دراوڑی زبانوں میں ان کی زبان کے الفاظ جھلکتے ہیں جن میں ایک لفظ تو ’’گنگ‘‘ بمعنی دریا ہے جو ہردریا کو کہاجاتا ہے۔ یہ لفظ بعد میں آنے والے سو کال آریاؤں نے صرف ایک مقدس دریاکے لیے مخصوص کردیا ہے ، بقول چیڑجی یہ لفظ چین میں جاکر کانگ بمعنی دریا کے ہوگیا اورچین میں جنوب کی طرف جاکر شیانگ اورچھیا نگ ، کیانگ بھی بن گیا ہے لیکن حیرت انگیز طورپر پشتو میں یہ لفظ دریا کو تو نہیں لیکن دریا کی جھاگ اورسیلابی دریائی ملبے کو کہاجاتا ہے ، ایک ٹپہ ہے جو اب بھی مروج ہے،یہ ہے کہ

کہ اباسین راغلے نہ وے

پہ گنگہ خڑو کے بہ چا موندہ لالونہ

ترجمہ۔ اگر اباسین ( دریائے سندھ) میں سیلاب نہ آیا ہوتا یا اباسین نہ چڑھتا تو گنگہ خڑو میں لال وجواہرکس کو ملتے گنگہ پانی کے اوپر جھاگ حس وخاشاک کوکہتے ہیں اورخڑ کامطلب ہے گدلا یاخاکی

لیکن اصل بات ہم لفظ’’لک‘‘ کی کریں گے ، سینتی کار چیڑجی کے مطابق وہ آسٹرک لوگ زراعت یازمین کھودنے کے لیے لکڑی کا آلہ استعمال کرتے تھے اسے لک کہتے تھے یہ پنسل یا کیل کی طرح ایک نوکدار لکڑی ہوتی تھی جس سے زمین کھود کر لکیریں بنائی جاتی تھیں اورپھر اس میں تخم ریزی کرتے تھے اورابھی کوئی جانورسدھایا نہیں گیا تھا اس لیے انسان ہی یہ آلہ استعمال کرتے جو ہل کاپیشروتھا ، اسی سے لکڑی کالفظ بھی مشتق ہے اورلکیریں کا بھی، اورچونکہ اسی کی وجہ سے انسان روزی پیداکرتا تھا اس لیے یہ آہستہ آہستہ ’’قسمت‘‘ سے بھی وابستہ ہوگیا یاقسمت اوررزق کی تقسیم اس سے وابستہ ہوگئی، چنانچہ پھر سنسکرت میں آکر لکش ، لکشمی اورلکشمن بھی ہوگیا ، یہ سیدھی لکڑی سیدھی لکیریں کھینچتی تھی چنانچہ ’’لک‘‘ کامطلب سیدھا کھڑا ہوا بھی ہے ، پشتو میں کسی چیز کو سیدھا گاڑنے یا پیڑلگانے کو بھی لک کرنا کہتے ہیں، فارسی میں جسے ایستادہ اوریستادگی کہتے ہیں مثلاً میرے سامنے ’’لک لک‘‘ مت ہو، آنکھوں میں لک لک مت ہو، مجھے انگلیاں لک لک مت کرو، فلاں ہروقت ہرجگہ لک لک ہوتا ہے ،لاکھ کا ہندسہ بھی ایستادگی اورخوش قسمتی کے معنی لیے ہوئے ہے

لک سے لکیریں اورپھر اس سے لکھنا ( سیدھی لکیروں ) بھی مشتق ہے ،سنسکرت میں ان کا ( ل) بدل کر (ر) ہوگیا تو ریکھا ریکھائیں بن گئیں۔

لیکن زیادہ پھیلاؤ اس نے منقلب ہوکر ’’کل‘‘ میں بدلنے کے بعد اختیار کیا ، انقلاب اورمنقلب کامطلب ہے الٹنا یاالٹا ہونا، جیسے اکثر لوگ چاقو ، قاچو مطلب کو مطبل وبال کو بوال معاہدے کو مہائیدہ کہتے ہیں چنانچہ لک بھی کیل میں بدل گیا پشتو میں اب بھی ہل کی لکیروں کو ’’کیلونہ‘‘ کہتے ہیں ، کچے راستوں پر گاڑیوں کی آمدورفت سے جو متوازن لکیریں بن جاتی ہیں ان کو ’’لیک‘‘ کہتے ہیں ۔

اب زراعت کرنے والوں کو فصل کا انتظار کرنے کے لیے کسی خاص جگہ ٹکے رہنا اوربسنا پڑتا ہے چنانچہ چھوٹی چھوٹی زراعتی بستیوں کو ’’کلے ‘‘ کہا جانے لگا ، لیک سے کیل اورکیل سے کلے یاکیلے ، پشتو میں تو بستی اورگاؤں کے لیے ’’کلے ‘‘ کالفظ عام ہے جو دوسری زبانوں والے ’’کیلے‘‘ بولتے ہیں ، پنجابی میں زمین کے کسی خاص ٹکڑے کو بھی ’’کلہ‘‘ کہتے ہیں ، پشتو میں زراعت کو ’’کرکیلہ‘‘ کہتے ہیں لفظ ’’کر‘‘ کاذکرتو کر اورچر کی بحث میں کرچکا ہوں کہ یہ دولفظ کر اورچر دوانسانی طبقوں یاپیشوں سے خاص ہیں، زراعت کاروں کا کام اورپیشہ ’’کر‘‘ تھا، جس سے آگے پھر کار ، کرنا ، کرم وغیرہ کے الفاظ بنتے ہیں جب کہ جانورپالنے والے اور چرانے والوں کا کام اورپیشہ ’’چر‘‘ اورچران تھا جس سے پھر آگے چرنا چرن اورچلنا یاچارہ اور جیسے الفاظ بنے ہیں جب کہ ان دونوں کا مجموعہ ’’چارہ کار‘‘ بنا جب پیشوں کی تخصیص ختم ہوگئی ۔

کر اورکرکیلہ زراعت کی بنیادیں ہیں چنانچہ کر یا زرعی لوگ جو کلے یاکیلہ بساتے ہیں تو ان بستیوں میں جو اجتماعی سرگرمیاں رسوم ورواجات اور تقریبات تشکیل پاتے ہیں ان کو پشتو میں ’’کلے ‘‘ کی مناسبت سے ’’کل تور‘‘ کلتورکہاجاتا ہے یعنی گاؤں کے طورطریقے یہی لفظ کلتور انگریزی میں جاکر کلچر ہوگیا اورپھر آگے ایگری کلچر ، ہارٹی کچلر ، ٹشو کلچر کاحصہ بھی بن گیا ہے ۔

(جاری ہے)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں