14

لاہور کا تبسم… صوفی تبسم

’ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی 125 ویں سالگرہ کا دو روزہ جشن منا رہے ہیں‘ صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی لاہور کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے فون پر دعوت دیتے ہوئے کہا۔…کب؟ کہاں؟

5 اگست ان کی سالگرہ کا دن ہے۔ اسی مناسبت سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں دو روزہ تقریبات کا سلسلہ ترتیب دیا ہے۔ آپ نے ضرور آنا ہے’ ڈاکٹر فوزیہ نے تاکید کی۔کیوں نہیں! میں تو ویسے بھی صوفی تبسم کا ادبی مقروض ہوں۔ہم نے شرکت کی حامی بھرتے ہوئے انھیں صوفی تبسم سے اپنے غائبانہ تعلق سے آگاہ کیا۔……وہ کیسے؟…وہ یوں کہ رحیم یار خاں کے دور افتادہ گاؤں (اب ایک قصبہ بن چکا) گورنمنٹ ہائی اسکول باغ و بہار میں چھٹی سے دسویں کلاس پڑھی، وہاں ٹاٹ پر بستہ اور تختی سنبھالے اسکول کے کشادہ سرسبز لان میں بابا بلیک شیپ۔۔۔ہیوو یو اینی ووول؟ والے مکالمے کی پہنچ تھی نہ ہمپٹی ڈمپٹی کا دیوار پر بیٹھنا سنا اور نہ اس کا گریٹ فال دیکھا۔کیسے دیکھتے، پسماندہ ضلعے کے ایک دور افتادہ دیہی اسکول میں جہاں بیشتر طلبا اسکول داخل ہونے سے قبل شلوار پہننے اور بوجھل دل سے اپنی دھوتی سمیٹ کر بستے میں ڈال کر گویا اسکول میں طالب علمی کی مشقت کرنے داخل ہوتے تھے۔ وہاں بابا بلیک شیپ کا کبھی گزر ممکن تھا نہ ہمپٹی ڈمپٹی کے کسی پھیرے کا امکان۔ ہاں ہمارے اساتذہ اور کورس کتابوں میں ایک ہم نشین جیسے شناسا ٹوٹ بٹوٹ کا بہت تذکرہ سنا۔سنا اور پڑھا۔

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ، ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی۔ اساتذہ نے ان دلنشین نظموں کا خالق صوفی تبسم بتلایا۔اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم کے ساتھ بھی ہماری کچھ ایسی ہی دل بستگی تھی۔

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

شاید اس لیے کہ گھر سے گائے کا تازہ دودھ پینے کے بعد اسکول پہنچنے کی بھاگ دوڑ میں رب کا شکر ادا کرنا اکثر بھول جاتے تو اسکول میں اسماعیل میرٹھی کی ہمزبانی کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے۔دوسری جانب سے ایک قہقہے کے ساتھ بات ختم ہو گئی ، سمجھیں یہ جشن ایسے ہی لوگوں کی یادوں کا تسلسل ہے۔چند ہفتے قبل صوفی تبسم آرٹس اکیڈمی سمن آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ قافلہء یاراں میں یار من شعیب بن عزیز اور نسیم شاہد بھی شامل تھے۔ غایت یہ تھی کہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ ان کے شریک زندگی آغا شاہد خان صوفی تبسم کی یاد میں قائم آرٹ اکیڈمی دکھانا چاہ رہے تھے۔

سمن آباد میں ایک پارک کے ساتھ یہ کونے والا گھر تھا جہاں صوفی تبسم کی رہائش تھی۔ اس مکان میں ان کی زندگی میں ان کے شاعر، علم دوست احباب اور دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ شہر کی کئی معروف محفلیں اسی گھر منعقد ہوتی رہیں۔ اسی گھر کا بالائی پورشن اب اس آرٹ اکیڈمی کے لیے مخصوص ہے۔ان کا کمرہ، کتابیں، لکھنے پڑھنے کی میز، بیڈ، تصاویر ، حقہ، انھیں ملنے والے امتیازات سمیت ان کی زیر استعمال اشیاء کو نوادرات کی صورت ترتیب اور سلیقے سے سجائے دیکھا تو کچھ لمحوں کے لیے لگا کہ ابھی کسی کونے سے آواز گونجے گی۔ برخوردار یہ کتاب دوبارہ اسی الماری میں ترتیب سے رکھو، یہ ہمارے عہد کا خزینہ ہیں۔اکیڈمی میں ایک کشادہ کمرہ محافل کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ایک مختصر اسٹیج، ساونڈ سسٹم اور دیواروں پر صوفی تبسم اور ان کے ساتھ ان کے ہم عصروں کی تصاویر کے ساتھ یہ کمرہ شعر و ادب اور میوزک کی ان گنت محفلوں کا میزبان رہا اور ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ تبسم خود بھی شاعرہ، نثرنگار اور کالمسٹ ہیں، پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر پروفیسر ہیں۔ ان کے خاوند آغا شاہد خان ایک کامیاب کاروباری تو ہیں لیکن صوفی تبسم کے کرداروں پر مبنی ڈرامائی پیشکشوں کے ہدایت کار بھی ہیں۔ دونوں ملنسار اور محفل داد ہیں۔ اسی سبب آج کے نفسا نفسی کے دور میں بھی میوزک اور شعر و ادب کی محفلیں اس اکیڈمی کا امتیاز ہیں۔جشن صوفی تبسم کا دو روزہ پروگرام ان کی مختلف جہتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا۔ پہلے سیشن میں ڈاکٹر نجیبہ عارف، سلمیٰ اعوان ، مجیب الرحمٰن شامی ، معروف شاعر اور کالمسٹ نسیم شاہد سمیت دیگر مقررین نے اپنے ذاتی اور ادبی حوالوں سے گفتگو کی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور عزیز چانڈیو نے بعد ازاں گلہ کیا کہ صوفی تبسم کی پنجابی شاعری کی عظمت کا تقاضا تھا کہ اسٹیج پر پنجابی میں بھی اظہار خیال کیا جاتا۔ یہ کمی کچھ حد تک مدثر بشیر نے پوری کی لیکن عزیز چانڈیو کا مشاہدہ قابل غور ہے۔

دوسرے سیشن میں انوشے شاہد کی بنائی دستاویزی فلم ‘آنے والے شاعر کے نام ‘ اور سلیمہ ہاشمی کے ساتھ اس پر گفتگو بہت دلچسپ اور پرمغز تھی تیسرے سیشن میں ٹوٹ بٹوٹ میوزیکل شو میں صوفی تبسم کی مشہور بچوں کی نظموں کی انتہائی شاندار ڈرامائی پیشکش تھی۔ حاضرین میں بچوں کی ایک کثیر تعداد کی موجودگی اور داد سے اندازہ ہورہا تھا کہ نصف صدی سے قبل کے یہ کردار آج بھی دلوں کو لبھاتے ہیں۔دوسرے روز صوفی تبسم کی شاعری اور تراجم کے حوالے سے ایک فکر انگیز سیشن تھا۔ آخری پروگرام شام غزل کے عنوان سے رکھا گیا۔

صوفی تبسم کے فارسی، اردو اور پنجابی کلام کو عمران شوکت ، ترنم ناز اور غلام علی سمیت نوجوان گلوکاروں نے گا کر سماں باندھ دیا۔انھوں نے 1965 کی جنگ میں متعدد یادگارجنگی ترانے لکھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے ان کے جنگی ترانے گاکر انھیں امر کردیا: ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے، میریا ڈھول سپاہیا تینوں ربّ دیا رکھاں، ’میرا سوہنا شہر قصور نی، یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی‘‘۔ ان جنگی ترانوں کی گونج سے اٹھتے قدم آج بھی ٹھہر جاتے ہیں۔لاہور کے تبسم صوفی تبسم کی 1973 میں لکھی ایک نظم نئے جہانوں کے لیے ان کی مسلسل تڑپ کا کچھ یوں احاطہ کرتی ہے:

بند ہو جائے مری آنکھ اگر

اس دریچے کو کھلا رہنے دو

یہ دریچہ ہے افق آئینہ

اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر

اس دریچے کو کھلا رہنے دو





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں