34

ورفعنا لک ذکرک – ایکسپریس اردو

[ad_1]

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کے دکھ اور ذہنی اذیت کو دور فرمانے کے لیے پوری سورۃ نازل فرما دی، سورۃ الکوثر میں اللہ نے اپنے پیارے نبی آخرالزماں ﷺ کو اس طرح حوصلہ دیا ہے کہ ’’آپ کا دشمن ہی ابتر ہوگا۔‘‘ اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ جب آپؐ کے دونوں صاحبزادے سید قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکے بعد دیگرے رحلت فرما گئے، دونوں شہزادے کم عمر تھے، فرزند ارجمند جناب سیدنا قاسمؓ کی شیرخوارگی کا زمانہ تھا جبکہ سیدنا عبداللہؓ چلنے کی کوشش کررہے تھے۔

اس حادثے نے آپؐ کو غمگین کردیا تھا، یہ وہ دور تھا جب حق اور باطل کے دوران محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی اور پیارے نبی ﷺ کے دشمن آپؐ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، اس سانحے نے مخالفین کو پروپیگنڈا کرنے کا موقعہ دیا، سخت دل چچا ابولہب اور قریش مکہ کی اکثریت نے اپنی محفلوں میں دکھ دینے والا طرز عمل اختیارکیا اور دل آزار فقرے کسنے لگے۔ کفار کے جواب میں اللہ نے سورۃ کوثر نازل فرمائی۔

’’ بلاشبہ ہم نے آپ کوکوثرعطا کی، پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو، یقینا آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا ۔‘‘

ان حالات میں دشمن جوکہ عزیز و اقارب تھے اور مکہ کے نام نہاد سردار طنز کے تیر برسا رہے تھے اسی دوران آپؐ کی تسلی و تشفی کے لیے جبرئیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آئے اور فرمایا:’’آپ ﷺ دل شکستہ نہ ہوں، مستقبل کی تمام عظیم ترین کامیابیاں، بھلائیاں اور خیرکثیر آپ ﷺ کی منتظر ہیں، دونوں جہانوں میں آپ ﷺ کا مرتبہ بلند رہے گا۔‘‘

سورۃ الم نشرح میں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی دلجوئی کرتے ہوئے خوشخبری سنا رہے ہیں: ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی بے پناہ محبت و الفت کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے بلند مقام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جس مرتبے سے نبی کریم ﷺ کو سرفرازکیا گیا ہے۔ آپ کو وہ عزت و وقار اور مرتبہ نصیب ہوا جو کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ معراج کا واقعہ پیش آیا، تمام نبیوں سے گفتگو جنت، دوزخ کا منظر اور اپنے رب اپنے مالک و خالق سے ملاقات، ساتوں آسمانوں کا سفر اور اللہ کی قدرت کاملہ کا دیدار، سبحان اللہ۔ انسان، حیوان، چرند، پرند غرض ہر ذی نفس کیوں نہ رشک کریں کہ ایسا پیارا نبی جس نے جہالت کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیا، خود تکلیفیں اٹھائیں، راتوں کو ’’رب ھب لی امتی‘‘ کا ورد اللہ کے حضورکیا، رو رو کر دعائیں مانگیں کہ ’’ اے اللہ میری امت کو بخش دے۔‘‘

لیکن یہ امت اپنی حرکتوں اورکرتوتوں کی بنا پر خود ہی اعلیٰ مقام سے ادنیٰ مقام پر آگئی۔آج ہمارا معاشرہ ذلت و جہالت کی دلدل میں دھنس چکا ہے دنیا بھر کے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات، اللہ کے احکامات کے پرخچے اڑا دیے ہیں، محض دنیا کی لذتوں کیلئے، موت کو بھلا چکے ہیں، مسلمان اور ان کے حکمران بہت بڑی آزمائش سے گزرے ہیں اور اب بھی گزر رہے ہیں، ’’غزہ‘‘ میں قیامت بپا ہے، اسرائیل کی دہشت 56-57 اسلامی ملکوں پر طاری ہے۔ کوئی نہیں اس خوفناک ظلم اور اسرائیل کی درندگی پر آواز نہیں اٹھاتا، مدد کرتا، الامان الحفیظ۔

بات یہ ہے کہ غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو اپنا رہے ہیں لیکن جو نسلا مسلمان ہیں وہ غافل ہوگئے ہیں، ان کا مذہب تہواروں اور مغرب کی تقلید کرنے کے گرد گھومتا ہے۔ آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ، صبر و شکر، عدل و انصاف اور عائلی و خاندانی اور معاشرتی نظام کو بھولی بسری کہانی بنا دیا گیا ہے۔ مجھے رسول پاک ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع اور فتح مکہ یاد آ رہا ہے۔ ہزاروں مظالم اور کفار کی شر انگیزیاں برداشت کرنے کے بعد آخر مکہ فتح ہوگیا۔ اس موقع پر آپ ﷺ اپنی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا کر رہے تھے۔

’’آج حق غالب آگیا، باطل مٹ گیا، بے شک باطن کو مٹنا ہی تھا، جس وقت کفارکے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کوکعبہ کے در و دیوار سے نکال کر حقارت کے ساتھ توڑا جا رہا تھا، یہ وہ وقت تھا جب کفر و شرک کی پرستش کرنے والے اپنی گردنیں جھکائے کھڑے تھے۔ اس موقع پر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوم سے خطاب فرمایا۔ ’’اے لوگوں، معبود حقیقی ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک یگانہ و یکتا ہے۔‘‘

اے جماعت قریش! اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہاری جہالت تکبر اور اپنے خاندان اور قبیلے پر فخرکا اظہار، نسب کی برتری کے تمام دعوؤں کو جھوٹا قرار دیا ہے اور ہمیشہ کے لیے مٹا دیا ہے، تمام انسان آدم کی اولادیں اور خود آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے۔ آپ ﷺ نے سورۃ الحجرات کی تلاوت فرمائی ’’ درحقیقت سب سے زیادہ افضل وہ شخص ہے جو خداترسی اور پرہیزگاری میں سب سے آگے ہو، بے شک اللہ سب جاننے اور خبر رکھنے والا ہے۔

قریش کے وہ سردار جو اپنی بڑائی کا دعویٰ کرتے اور مسلمانوں اور رسول پاک ﷺ کے ساتھیوں پر ظلم کی انتہا کر دیتے تھے، آج وہ کعبہ کے صحن میں سر جھکائے کانپتے جسموں اور لرزتے دلوں کے ساتھ کھڑے تھے، بڑے سے بڑا مجرم، منافق،کاذب، فیصلے کا منتظر تھا لیکن آپ ﷺ کی شان کریمی کہ سب کو معاف کر دیا۔ گمراہی، بدکاری، خباثت اور ریاکاری کے بت ٹوٹ گئے شہر مکہ ہر برائی سے پاک ہوگیا اسلام کا جھنڈا بلند ہو گیا۔

مسلمانوں اتنا تو سوچو کہ جس نبی ﷺ نے اپنی پوری زندگی کفر کو مٹانے اور حق پھیلانے میں گزار دی اور اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ صرف اور صرف آپ ﷺ کی بے شمار قربانیوں اور مصائب و تکالیف کو صبر کے ساتھ سہنے کے بعد پوری دنیا اسلام کے نور سے روشن ہوگئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

لیکن اب جبکہ قرآنی تعلیم اور رسول پاکؐ کی اطاعت کا در اپنے ہاتھوں بند کر دیا ہے۔ پھر وہی جہالت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ ہم آپؐ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کے لیے کوششوں کے سیمینار کیوں منعقد نہیں کرتے ہیں، اپنے آپ کو منافقت، دروغ گوئی جیسے اعمال سے دور رکھیں۔ تب ہی ایمان کی روشنی پھیل سکتی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہر سمت حق کی صدائیں بلند ہوں گی۔ ہمارے نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں عورتوں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا، مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کی تعلیم دی، سود حرام قرار دیا۔ زمانہ جہالت کے تمام خون اور بدلوں کی روش کو معاف فرما دیا۔

اور آج انتقام کی سیاست اور عورتوں کا عزت و احترام، بددیانتی عام ہو چکا ہے، عدل کا نظام قرآن کی تعلیم سے ہٹ کر اپنی مرضی سے بنایا جا رہا ہے، فیصلے بھی دوسروں کی خوشی اور فائدے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل دین ودنیا میں بربادی لانے کے سوا کچھ نہیں، بہتر یہی ہے کہ آپ کی سیرت کو اپنا کر دوسروں کے کام آئیں۔

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

وصف جس کا ہے آئینہ حق نما

اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں