27

شیخ سعدی، افغان اور حالات

[ad_1]

شیخ سعدی سے منسوب بعض حکایات غلط العوام چلی آ رہی ہیں،اسی طرح اول افغان والی حکایت یا عمیق مشاہدہ کیونکر آج کے زمانے تک چلتا چلا آرہا ہے اورکیوں نہ شیخ سعدی کی مذکورہ حکایت کو آنے والے دانشوروں یا زعما نے اب تک تبدیل نہیں کیا یا اس کو مسترد کرتے ہوئے اس کے مقابل کوئی مضبوط حکایت نہ لا پائے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شیخ سعدی کے علم و مشاہدے کو زمانے نے تسلیم کر لیا ہے اور ارد گرد کے حالات و واقعات کے تناظر میں اس حکایت کو جوں کا توں اس کی حقانیت کی بنیاد پر برقرار رکھا ہوا ہے۔

چونکہ علم وکسب کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اور اس طوالت کی بنیادی وجہ علم کو جاننے کی وہ کھلی کھڑکی ہوتی ہے جس کا ایک پٹ ہمیشہ کھلا رکھا جاتا ہے، تاکہ اس کی دانش سے ہر زمانہ فیض یاب ہوتا رہے اور شاید یہی انسان کے ذہنی ارتقا کا ایک مثبت پہلو ہوتا ہے کہ جس سے ’’ردِ علم‘‘ کی قوتوں کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔

یوں تو تاریخ نہ شیر شاہ سوری کے افغان ہونے کو بُھلا پائی ہے نہ اس کے قزاق ہونے اور برصغیر پر قبضے کی حکمرانی کے دور میں گرانٹ ٹرنک روڈ GTS کی تعمیر کو نظر اندازکرپائی ہے، مگر ان تمام کے باوجود شیر شاہ سوری پر قزاق کا دھبہ چھوٹ نہیں پایا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے سماج کی نئی نسل نے افغان مہاجرین اور افغان طالبان کی دہشت اور وحشت میں آنکھ کھولی اور اب تک طالبان دہشت گردی اور انتشار پسندی کے عذاب میں رہ رہے ہیں، بھلا ہو آمر جنرل ضیا کا کہ اس نے امریکی مفاد اور اپنے تنگ نظر مقاصد کی خاطر وطن کی مٹی میں افغان جہادیوں کی آمیزش کی اور بعد کو آمر جنرل ضیا کی یہ وراثت یا تحفہ ہمارے سماج کی رگ و پے میں ریاستی پالیسی کے طور پر شامل رہا جس کی انتہائی شکل طالبان دہشت گرد ہیں جو اب بھی افغان طالبان کی سر پرستی میں وطن کی زمین کو کشت و خون اور انتشار سے نہلا رہے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب ان طالبان دہشت گردوں کے سزائے موت کے مجرمان کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے حامی حکومتی عہدیداروں نے نہایت ہی سفاکانہ طریقے سے طالبان کی محبت میں معافی دی بلکہ اپنے اقدام کو وطن اور خطے میں امن کی ضرورت سے تعبیرکر کے دراصل طالبان دہشت گردوں کے سہولت کار بنے اور اب تک خود کو ان ’’ فتنہ خوارج‘‘ کے حامی و مددگار ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے ملک کو سیاسی انتشار، جھوٹ اور فریب کی دلدل میں دھنسا کر وطن کے معاشی استحکام کو دریدہ کیا ہوا ہے اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے پر بڑی ڈھٹائی سے جتے ہوئے ہیں۔

یہ 1980 کی دہائی کا وہ خوفناک المیہ ہے جب ملک جنرل ضیا کے خونی سفاک پنجوں میں جکڑا ہوا تھا، منتخب وزیراعظم کو عدالتی سہولت کاری سے سزائے موت دلوا دی گئی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب افغانستان میں نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں افغان عوام نے اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے کی ٹھانی تھی اور بادی النظر میں خطے میں جاری امریکی سامراجیت کو چیلنج کیا تھا، افغانستان کے ’’ انقلابِ ثور‘‘ کی حمایت میں بالعموم دنیا اور بالخصوص پاکستانی جمہوریت پسند اور روشن خیال قوتیں افغان حکومت کی پائیداری کے لیے متحرک تھیں۔

جبکہ دوسری جانب آمر جنرل ضیا کی دھوکہ دہی کی مذہب پرستی کو کچھ مذہبی قوتیں جنرل ضیا کے احتساب اور مذہبی تڑکے میں لپٹے امریکی ڈالرز کی لالچ میں آمر جنرل ضیا کی کھل کر حمایت کر رہی تھیں، جس کے دفاع میں ان مذہبی جماعتوں کی مدد و حمایت سے گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں پاکستان سے ’’ افغان جہاد‘‘ کا اعلان کیا گیا اور پاکستان سے ’’جہادیوں‘‘ کی کمک افغانستان پہنچانا شروع کی گئی۔

جس کے عیوض اسلامی جماعتوں کو نہ صرف امریکی ڈالرز سے نوازا گیا بلکہ اسلامی جماعتوں کو پاکستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مدارس قائم کرنے کے لیے اہم جگہوں پر زمین فراہم کی تاکہ یہ مذہبی جماعتیں تبلیغ اور جہاد کا ڈھونگ کر کے پاکستانی سماج کی سوچ کو تنگ نظر جہادی بنائیں اور سماج میں مذہبی منافرت کا بیج بوکر آمر جنرل ضیا کی حمایت کے ساتھ ساتھ امریکی ڈالر سمیٹیں، اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ افغان جہاد بھی ایک فراڈ نکلا اور ان مخصوص مذہبی جماعتوں کا بیانیہ بھی ایک دھوکہ لیے عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے۔

80 کی دہائی میں اُس وقت کے کمیونسٹ ترقی پسند اور جمہوریت پسند قوتیں بار بار انتباہ کر رہی تھیں کہ یہ نہ افغان جہاد ہے اور نہ افغانستان کی آزادی کی جنگ بلکہ یہ جنگ خطے میں امریکی مفادات کو مضبوط کرنے کے لیے لڑی جا رہی ہے جو مستقبل میں پورے سماج کو تنگ نظر سوچ اور دہشت گردی میں مبتلا کر دے گی، مگر اس وقت کی جنرل ضیا کے ٹولے نے جمہوریت پسند قوتوں کو جبریہ طور سے بندی خانوں میں بندکیا اور ریاستی تشدد سے ناصر بلوچ، نذیر عباسی سمیت سیکڑوں جمہوریت پسندوں کو بے دردی سے قتل کیا۔

جنرل ضیا سمیت نامور فوجی جنرل طیارے حادثے کا شکار ہو گئے اور یوں ملک میں آمر جنرل ضیا کے افغان جہادی فلسفے کا اختتام ہوا مگر جنرل ضیا کے افغان جہادی فلسفے کے اثرات نے مذہبی تنگ نظر فکر کے حامل پالیسی سازوں کو یہ مواقع دیے کہ وہ افغان جہاد میں امریکی ڈالرز حاصل کرنے میں جتے رہیں، جس کے لیے پاکستان کی سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی جنہوں نے طالبان فکر کو آگے لے جانے کے لیے عمران خان کا انتخاب کیا جو آج تک امریکی مفادات اور خطے میں معاشی عدم استحکام قائم رکھنے میں امریکی برانڈ افغان طالبان کی حکومتی دہشت گردی کو قائم کرنے کے درپہ ہیں تاکہ خطے کی ترقی کو امریکی مفادات میں روکا جاسکے اور پاکستان کے معاشی استحکام کے منصوبوں ’’سی پیک‘‘ ایران، روس گیس پائپ لائن کو امریکی حمایت یافتہ افغان طالبان حکومت کے ذریعے ہر قیمت پر روکا جائے۔

بات اس سے بھی آگے اُس وقت بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی جب پشاور میں افغان قونصلر جنرل کو خیبر پختونخوا کے پی ٹی آئی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایک تقریب میں طلب کیا اور اس تقریب میں ملکی قومی ترانے پر سفارتی آداب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے افغان وفد کے ارکان قومی ترانے کے احترام میں دیگر شرکاء کے برعکس کھڑے نہ ہوئے، جس پر افغان حکومت کے وفد کی اس غیر سفارتی بد تہذیبی کی ملک بھر میں مذمت کی گئی، مگر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور ان کی پوری جماعت نے افغان وفد کی وضاحت کہ ’’ پاکستانی ترانے میں موسیقی تھی، لٰہذا ہم کھڑے نہ ہوئے‘‘ کو نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ اس پر پی ٹی آئی نے افغان طالبان کے نکتہ نظر کا دفاع کیا جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ اور عوام نے افغان وفد کے اس عمل کو ملک دشمنی اور سفارتی آداب کے خلاف عمل قرار دیا اور افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔

افغان وفد کے اس پورے عمل کے پیچھے آمر جنرل ضیا اور ان کی مذہبی باقیات قوتوں کی ایک بھیانک ملک دشمن اور سماج دشمن پالیسی ہے جو ملک کی نسل کو تنگ نظری میں لے جانا چاہتی ہے اور اسی افغان جہادی فکرکی ماڈرن شکل اور مدد کی صورت میں ہمارے ہاں افغان مہاجرین کی کاروباری پشت پناہی ہے جو مسلسل تحریک انصاف کی مدد کر رہی ہے، افغان جہادی فتنے کی اس موجودہ شکل سے نجات وقت کی وہ ضرورت ہے جس کے نتیجے میں فتنے کے ہر عمل کی روک تھام کے لیے ریاست کو ٹھوس اور مستقل نجات کی پالیسی بنانا ہوگی وگرنہ فتنہ خوارج سے سماج اور نسل کو بچانا مشکل امر ہوگا۔

آج کل پی ٹی آئی کے اکابرین کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ آئین کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ملک میں سیاسی،معاشی اور سماجی انتشار پیدا کر کے آئین کو بالادست کیا جائے۔صحافتی قدر کے طور پر پچھلے دنوں کراچی میں آئی ایس پی آر نے ایک اچھے قدم کے طور پر اپنے ڈی جی کی ایک خصوصی نشست کراچی کے صحافیوں کے ساتھ رکھی چونکہ اس نشست کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو وعدے کے تحت تحریر میں نہیں لایا جا سکتا ہے مگر یہ ضرورکہا جا سکتا ہے کہ ڈی جی کے عزم میں یہ بات بطور خاص تھی کہ پرانی پالیسیوں کے برعکس اب کسی بھی قیمت پرکسی بھی انتشار پسند فتنے یا فتنہ خوارج کو ملک میں نہیں بخشا جائے گا۔ اب مذکورہ عزم میں باقی کی نشانیاں شیخ سعدی کے قول اول افغان میں قارئین خود تلاش کریں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں