[ad_1]
کلچر یا ثقافت کا نام اکثر لیا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کلچر یا ثقافت کیا چیز ہے، اکثر اسے تہذیب وتمدن سے بھی گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ تہذیب وتمدن اورثقافت بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ تمدن کا لفظ تو مدن مدنی یعنی شہربستی یا رہائش سے اورتہذیب کے معنی مہذب سے واضح ہوجاتے ہیں، انسان جن ارتقائی مراحل سے گزرتا آیا ہے ،ان میں پہلا وحشت کا دورکہلاتا ہے یعنی جنگلی اورتقریباً نیم حیوانیت ، دوسرا مرحلہ بربریت کہلاتا ہے جس میں بستیاں لوٹنے اور قتل وقتال کا دور رہا ہے اورتیسرا مرحلہ تہذیب یاتمدن ہے۔ یونانیوں نے ان مراحل یا ادوار کو پیڑ، پہاڑی ، ڈیزرٹا ( صحرائی) اورفیلیکس میں تقسیم کیا ہے ۔ مولانا سلیمان ندوی نے اپنی کتاب تاریخ ’’ ارض القران‘‘ میں لکھا ہے کہ عربوں کے ہاں بھی یہ تین مرحلے کوہستانی، ریگستانی اورشہرستانی کہلاتے ہیں ۔
ایک انسانی گروہ نے زراعت اختیار کیا تو مستقل سکونت کا آغاز ہوا ، گاؤں، گراں یا پنڈ وجود میں آئے ، اجناس و مویشیوں کا لین شروع ہوا تو قصبے ، عبادت گاہیں اورشہر آباد ہوئے ۔اس ارتقائی کے دوران انسانوں نے جو طورطریقے اور ضابطے اپنائے ، وہ تہذیب تھی ۔ لیکن ثقافت قطعی الگ اوربہت بعد میں تشکیل پانے والی چیز کا نام ہے اوراسے سمجھنے کے لیے ہمیں انسان اور اس کی ساخت کو سمجھنا ہوگا ۔
انسان بھی ہرچیز کی طرح ’’ازواج‘‘ میں تقسیم ہوتا ہے ۔انسانی زندگی کاانحصار آکسیجن پر ہے ، یہ آکسیجن جب جسم میں استعمال ہوتی ہے جو کاربن میں تبدیل ہوجاتی ہے اوراس کاربن کو خارج کرنے کے لیے سانس باہرنکالی جاتی ہے۔ یوں دل وہ مرکزی پمپ ہے جو پھیپھڑوں سے آکسیجن بھرتا اور صاف خون جسم کو سپلائی کرتا ہے اورکاربن بھرا خون صفائی کے لیے پھیپھڑوں کو بھیجتا ہے ،اورپھیپھڑے کاربن کو باہرنکال کر خون میں آکسیجن بھرتے یا صاف کرتے ہیں۔
انسان جب آرام کی حالت میں رہتا ہے تو آکسیجن کے داخل ہونے اورکاربن کا اخراج بھی توازن کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے لیکن جب انسانی جسم کوئی حرکت، کوئی کام، کوئی محنت مشقت کرتا ہے تو آکسیجن خارج زیادہ ہوتی ہے لیکن فراہم کم ہوتی ہے چنانچہ جسم میں کاربن کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے، نتیجے میں سانس پھولنے لگتی ہے اورسانس کی عام آمدروفت میں توازن برقرارنہیں رہتا۔ یعنی خرچ زیادہ اورآمدن کم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں انسانی جسم کاخودکار نظام متحرک ہوجاتاہے اوراس فالتو کاربن کو نکالنے کے لیے جمائیاں لیتا ہے، اونچی آواز میں گاتا ہے، نعرے لگتا یا قہقہے لگاتا ہے اوراسے شعوری طورپر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ جسم کا خودکار نظام یہ سب کچھ کاربن خارج کرنے اورآکسیجن حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر محنت کش، مزدور، ملاح، مسافر اورگڈرئیے وغیر ہ بھی گاتے ہیں یا سانس پھونکنے والے آلات موسیقی بجاتے ہیں ۔
مستقل بستیوں میں آباد انسان دن بھر تو اپنا روزمرہ کاکام کرتے ہیں، محنت کش روزی روٹی کماتے ہیں تو رات کو ایسی اجتماعی سرگرمیاں ہوتی ہیں جن سے ان کی کاربن خارج ہوتی ہے اور وہ آرام محسوس کرتے ہیں ،اگر چہ کاربن اورآکسیجن کا توازن برقرار رکھنے کے لیے آرام اورنیند بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ جمائیاں جسم کا پیغام ہوتی ہیں کہ سونا چاہیے لیکن اس علاوہ بھی انسان کام کرنے اورتھک جانے کے بعد کچھ نہ کچھ ایسا کرتا ہے جس سے کاربن کم اورآکسیجن زیادہ ہوجاتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں گانے بجائے، رقص کرنے اورکھیلنے کے علاوہ وہ دیگر سرگرمیاں بھی آتی ہیں ۔ اس راز کو انسان آہستہ آہستہ سمجھنے لگا ہے، اس لیے دیگر تفریحات کے علاوہ لافنگ کلب وغیرہ بھی بنانے لگا ہے ۔
ایسی تمام سرگرمیاں ثقافت یاکلچر کے زمرے میں آتی ہیں ۔کلچر یاکلتور یعنی بستی کی اجتماعی سرگرمیاں۔ یہ لفظ ’’کلے ‘‘ جو اولین زراعتی اوزار لک سے سفر کرتا ہوا کلتور اورکلچر تک پہنچا تھا،کچھ اورشکلوں میں بھی سفرکرتا رہا ہے اورکئی زبانوں میں کئی الفاظ کی بنیاد بنتا ہے ، مثلاً انگریزی لفظ لک سے تو لکس لیکمے وغیرہ بنے لیکن کلے کی شکل میں بھی کلچر کے ساتھ ساتھ کلکشن ، کلیکٹ، کیلکو لیٹ ، کیلکو لیٹر یہاںتک کہ کلیکٹرتک بھی پہنچا اورکلے (مٹی) تک بھی۔
جب کہ دجلہ وفرات کی وادیوں میں جاکر کلے سے کلدہ ،کلدانی جیسے الفاظ بھی بن گئے ، کلدانی دجلہ وفرات میں برسراقتدار آنے والی ایک قوم تھی ۔ بابل میں ایک عظیم سلطنت بنانے والا اوریروشلم کو تباہ کرکے یہودیوں کو بابل میں اسیر کرنے والا بخت نصرکلدانی تھا ۔یہ لفظ پھر یورپی زبانوں میں جاکر کالین اورکیلٹ بھی بن گیا ہے لیکن زیادہ دلچسپ کہانی اس لفظ کی سامی زبانوں میں جہاں یہ ’’خلد‘‘ خلدہ ، خلدین، کی شکل میں اختیار کرگیا۔خلد ، خالد ، خلود سب کے معنی ’’داخل‘‘ہونے ، رہنے ، ایک خاص جائے رہائش مقام یا بستی کے ہوتے ہیں جہاں کے رہنے والے خلدین ہوتے ہیں ۔
جنت کے لیے استعمال ہونے والا لفظ’’ خلد‘‘ بھی اسی قبیلے کا ہے ، جس کے رہنے والے خلد آشیانی ہوتے ہیں ۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
اولین زراعت کاروں کی اولین رہائش گاہ اور زرعی بستی خلد، ’’کلے‘‘ ، کلدہ ، کلد۔
اس بارے میں مزید تفصیلی بحث پھر کبھی کریں گے ۔
[ad_2]
Source link