61

زباں فہمی نمبر223 ؛ اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی (حصہ چہارُم)

[ad_1]

 کراچی: نفسِ مضمون پر گفتگو سمیٹنا بہت مشکل ہے کیونکہ اثنائے تحریر ہی نیا مواد سامنے آتا جارہاہے۔فیس بُک پر جناب الطاف داؤد پوٹہ نے مختلف مآخذ کی مددسے ایک مضمونچہ تحریر فرمایا جس کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ اِس خطے کی قدیم نسل دراوڑ،درحقیقت حبشہ یا ایتھوپیاسے ترکِ وطن کرکے یہاں آئی تھی۔

عین ممکن ہے کہ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے علم بشریات (Anthropology)اور لسانیات (Linguistics) کے ماہرین نے اس جہت میں یہ نظریہ قائم کیا ہو۔خاکسار تو ماقبل بھی ایک سے زائد بار لکھ چکا ہے کہ تمام علوم کوملاکر دیکھا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاہ فام ایک ہی نسل ہے، خواہ اس کے اراکین افریقہ میں مقیم ہوں یا آسٹریلیا میں، ایشیا کے کسی کونے کھُدرے کے مکین ہوں یا امریکی برّ اعظموں یا یورپ میں ; دینی ومذہبی روایات پر یقین کیا جائے تو یہ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے فرزند حضرت حام کی اولاد سے ہیں۔

انھیں دنیا کی اکثر زبانوں میں ہِسپانوی لفظ نیگرو (Negro)بمعنی سیاہ فام یا مماثل یا قریبی مفہوم کے حامل الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔یہی عربی زبان میں زنج اور زنجی کہلائے جن سے افریقہ کا مقام (سابق ریاست) زنجی بار (Zanjibar)۔یا۔ زنزی بار (Zanzibar)کہلاتا ہے جو اَب تنزانیہ کا حصہ ہے۔تاریخی لحاظ سے جنوب مشرقی افریقہ کا خطہ ’زنج‘ کہلاتا ہے جس میں مصر، حبشہ (Abyssinia or Ethiopia)اوربربرا (موجودہ صومالیہ)شامل ہیں۔زنجی بار عربی لفظ ہے جسے افریقہ کی بڑی زبان سواحلی (Swahili)میں اختلافِ تلفظ سے زنزی بارکہاجاتاہے اور یہی تلفظ انگریزی کے توسط سے عام ہوا۔

جناب الطاف داؤد پوٹہ کی تحریر مندرجہ ذیل ہے:
(”ایتھوپیائیوں نے ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکمرانی کی“ ”ایتھوپیائیوں (غالباً موصوف اس امر سے ناواقف ہیں کہ اس قوم کو مدتوں حبشی کہاجاتا رہا ہے: س ا ص)کے ہندوستانیوں کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ حقیقت میں، قدیم زمانے میں ایتھوپیائیوں نے ہندوستان کے زیادہ تر حصے پر حکمرانی کی۔ ان ایتھوپیائیوں کو ناگا کہا جاتا تھا۔ یہ ناگا ہی تھے جنہوں نے سنسکرت تخلیق کی)۔

یہ نام ’ناگ‘ یعنی سانپ ہے جسے سنسکِرِت سے ناواقفیت کے سبب، آخری حرف پڑھتے ہوئے ’ناگا‘ لکھا گیا: س ا ص)۔قدیم دراوڑ اَدب، جو (سن) 500 قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے، ہمیں ناگا کے بارے میں کافی معلومات فراہم کرتا ہے۔ ہندوستانی روایت میں، ناگا نے مرکزی ہندوستان کو ولاور (تیر انداز) اور مینوار (ماہی گیر) سے جیتا۔(یعنی تِیر اَندازسپاہ اور ماہی گیرطبقے پرغلبہ حاصل کرکے فتح کیا: س اص)۔ناگا عظیم سمندری لوگ تھے جو ہندوستان، سری لنکا اور برما کے بیشتر حصے پر حکمرانی کرتے تھے۔ آریائی انہیں آدھا انسان اور آدھا سانپ کے طور پر بیان کرتے تھے۔ تَمِل اُنہیں (ایسی) جنگجو قوم کے طور پر جانتے تھے جو تِیر اور پھندا استعمال کرتے تھے(کرتی تھی)۔ناگا کا سب سے پہلا ذکر رامائن میں ملتا ہے، اور ان کا ذکر مہابھارت میں بھی ہے۔

مہا بھارت میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ناگا کا دارالحکومت دکن میں تھا، اور ان کے دیگر شہر جمنا اور گنگا کے درمیان(سن) 1300 قبل مسیح تک پھیلے ہوئے تھے۔ دراوڑ کلاسک، چلاپتھیکارم واضح طور پر بتاتا ہے کہ ہندوستان کی پہلی عظیم سلطنت ناگانادو تھی۔ناگا شاید کوش۔پنت/ایتھوپیا سے آئے تھے۔ پنت کے لوگ قدیم دنیا کے عظیم ترین ملاح تھے۔ مصری کتبوں میں پنت کے بندرگاہوں اوتکولیت، ہمیسو اور تکارو کا ذکر ملتا ہے، جو عدولیس، حماسین اور ٹگری سے مطابقت رکھتے ہیں۔

سومیریائی(سُمیری) تحریروں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنت کے لوگ وادی سندھ یا دلمن کے لوگوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔ ایس این کرامر کے مطابق، ”دی سومیریانز” میں، پنت کا ایک حصہ شاید میلُہّا کہلاتا تھا، اور دلمن شاید وادی سندھ کا قدیم نام تھا۔آج کچھ علماء کا خیال ہے کہ عُمان، جہاں ہمیں کوئی قدیم شہر نہیں ملتا، دلمن تھا اور وادی سندھ شاید میلُہّا تھی۔قدیم ایتھوپیائی (حبشی)روایات پنت یا ایتھوپیائیوں کی ہندوستان پر حکمرانی کی تائید کرتی ہیں۔ کبرا نگست میں، ہمیں ان اروے بادشاہوں کا ذکر ملتا ہے جو ہندوستان پر حکمرانی کرتے تھے۔ اس خاندان کے بانی زا بیزی انگابو تھے۔ کبرا نگست کے مطابق یہ خاندان تقریباً(سن) 1370 قبل مسیح میں شروع ہوا“)۔

راقم سہیل نے اس مضمون کے دونوں ماخذ نیز دیگر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ سراسر مذہبی حکایت ہے جسے تاریخ اور لسانیات سے نتھی کرکے دراوڑوں کی ابتداء کا نظریہ وضع کرلیا گیا ہے۔اس بابت مطالعے اور تحقیق کا شوق رکھنے والے قارئین مندرجہ ذیل ربط ملاحظہ فرماسکتے ہیں:

https://www.sanskritimagazine.com/nagas-ancient-india
https://theafricanhistory.com/

مؤخرالذکر ویب سائٹ پر دستیاب مضمون میں مندرجہ ذیل انکشافات کیے گئے ہیں:

“The darkest man is here the most highly esteemed and considered better than the others who are not so dark. Let me add that in very truth these people portray and depict their gods and their idols black and their devils white as snow. For they say that God and all the saints are black and the devils are all white. That is why they portray them as I have described.”– Marco Polo,after visiting the Pandyan Kingdom in 1288.

مارکوپولو کی اس عبارت ِ منقولہ سے معلوم ہوا کہ محولہ بالاحبشی نژاد بادشاہوں کے عہد میں سب سے زیادہ سیاہ رنگت والے شخص کو دیگر پر فوقیت حاصل تھی۔یہ لوگ اپنے خُداؤں اور بُتوں کو سیاہ بتاتے اور شیطانو ں کو برف کے مانند سفید۔اُن کے کہنے کے مطابق خُدا اور اُس کے اُتارے ہوئے سارے سَنت (ہمارے یہاں صوفی) کالے اور شیطان گورے ہوتے ہیں،یہی سبب ہے کہ وہ انھیں ایسا کہتے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا۔آگے چل کر مزید وضاحت کی گئی کہ وادی سندھ میں ایک پُرشِکوہ تہذیب کی بنیاد، یونان اور روم کی سلطنت کے ارتقاء سے بھی کوئی ایک ہزار سال قبل، انہی سیاہ فام مردوزن نے رکھی۔وہی یہاں اپنی تجارت، ثقافت اور مذہب کی ہندوستان میں درآمد کا ذریعہ بنے۔

A dominant civilization was built in the Indus Valley more than a thousand years by prideful and ambitious Black men and women known as the Dravidians before the foundation of Greece and Rome. From those origins, African Kings have driven the trade, culture, and belief systems of the region in India.

سوال یہ ہے کہ آیا یہ مفروضہ یا نظریہ سائنسی بنیاد پر صحیح بھی ہے؟

Afrocentrism: Myth or Science کے مصنف Dr. Clyde Winters نے تحریرکیا کہ ”حبشیوں کے ہندوستانیوں سے بہت گہرے مراسم تھے۔درحقیقت، انھوں نے ہندوستان کے اکثر حصے پر حکومت کی تھی۔یہ حبشی ’ناگ‘ کہلاتے تھے۔اُنہی نے سنسکِرِت بھی تشکیل دی تھی۔(یہ بات مشہور نظریے کے بالکل برعکس ہے کہ سنسکرت آریہ قوم کی زبان تھی: س اص)۔

Dr. Clyde Winters, author of“Afrocentrism: Myth or Science?”writes:
“Ethiopians have had very intimate relations with Indians. In fact, in antiquity the Ethiopians ruled much of India. These Ethiopians were called the Naga. It was the Naga who created Sanskrit”.

ہندوستان کے حبشی نژاد حکمرانوں کا سلسلہ صدیوں پر محیط رہا، مگر اِس تاریخ میں براہوی قوم کا براہ راست ذکر نہیں ملتا، یوں بھی تمام براہوی اُس طرح سیاہ فام نہیں ہوتے جیسے حبشی ہوتے تھے اور ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ براہوی قوم کی تشکیل میں دیگر اقوام سے اختلاط بھی شامل ہو۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان ہی میں (گوجبراً)شامل ناگالینڈ کی قوم ناگا اس سارے بیان سے الگ تھلگ اور مختلف قوم ہے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ اہل زبان براہوی محققین نے اسی مضمون کی تحریرکے دوران میں رابطہ کرلیا ہے، گو تاخیر سے سہی۔ان میں ایک بڑا نام جناب نذیر شاکر براہوی کا ہے جو براہوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان، شکارپور (سندھ)(تاسیس: 22فروری 2013ء) کے ڈائیریکٹر اور دَراوڑ تحقیقی بورڈ(Dravidian research board)،Dravidian Linguistics Association،کیرلا (ہندوستان)اور ایک تحقیقی ویب سائٹ https://brahui.org/سے بھی منسلک ہیں۔

وہ بیرونِ ملک منعقد ہونے والے سیمینارز۔یا۔پروگرامو ں میں آنلائن لیکچر بھی دیتے ہیں۔گڑھی یاسین، شکار پور (سندھ) سے تعلق رکھنے والے نذیر شاکر صاحب براہوی، سندھی، سرائیکی،اردو اور انگریزی سے کماحقہ واقف ہیں۔اُن کاکہناہے کہ دنیا بھر کے ماہرین لسانیات و آ ثارِ قدیمہ،تاریخ داں اور عالمِ بشریات اس نکتے پر متفق ہیں کہ اس خطے کی اوّلین زبان براہوی تھی اور ہے۔اس ضمن میں انھوں نے ان ماہرین کے نام گنوائے ہیں:

G.R. Hunter, Peru Marigi, MaCAlpin, Rasheed Akhtar Nadvi, Kamil-u-l Qadri, M.S. Andronov. Gankovisky and others

اس حقیقت کے پیش نظر کہ بلوچ اوربراہوی لسانی گروہ اپنے نسلی و لسانی اختلافات کی بناء پر ایک مدت سے متصادم ومتحارب رہے ہیں، براہوی قوم کے بڑوں نے اپنی جداگانہ شناخت کے لیے باقاعدہ جدوجہد کی۔’بابائے براہوی‘ جناب نورمحمد پروانہ نے 1952ء میں آل پاکستان براہوی ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔انھوں نے اس سلسلے میں اپنی قوم کو پیغام دیا کہ سیاست، تعلیم اور ادب کے شعبو ں میں آگے بڑھیں اور اپنی پہچان منوائیں، کیونکہ ہماری زبان، ثقافت، زمین اور تاریخ سب کچھ الگ ہے۔

پروانہ ؔ نے براہوی میں ایک ہفت روزہ اخبار eilumکا آغاز کیا اور اس کے ذریعے سے ایک الگ رسم الخط وضع کرکے عام کیاجو آج بھی مستعمل ہے۔1972ء میں براہوی اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بلوچستان میں براہوی بطور مادری زبان تدریس کی مہم شروع کی۔اس لسانی تحریک کے نوجوانو ں نے یہ پرچار کیا کہ بلوچستان کی زبانیں تین ہیں: براہوی، بلوچی اور سرائیکی(حالانکہ وہاں پشتو، سندھی،پنجابی اور اردو بھی موجودہیں)۔اس کے نتیجے میں اُس وقت کے گورنر غوث بخش بزنجو اور وزیراعلیٰ سردار عطا ء اللہ مینگل نے تنازُع سے بچنے کے لیے صوبے کی سرکاری زبان اردو قراردی۔

1988ء میں براہوی اسٹوڈنٹس فیڈریشن ایک مرتبہ پھر فعال ہوئی۔اس موقع پر ڈاکٹر علی احمد شاد، مشہور براہوی شاعر جوہرؔ براہوی، پروفیسر سوسن براہوی، شہید جان محمد بسمل براہوی، شہید حسن زَباد براہوی جیسے رہنما نمایاں ہوئے جنھوں نے صوبہ بلوچستان اور سندھ میں آباد براہوی قوم میں سیاسی، تعلیمی، ادبی اور سماجی اعتبار سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔

بلوچستان میں مخاصمت سے بچنے کے لیے براہویوں نے سندھ میں اپنا کام تیز کیا تو براہوی نیشنل موومنٹ، سندھ بروہی الائنس، براہوی اسٹوڈنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن، آل پاکستان براہوی ویلفیئر ایسوسی ایشن، براہوی نیشنل کاؤنسل، براہوی اسٹوڈنٹس کونسل جیسی تنظیموں نے مختلف محاذوں پر فعال کردارادا کیا۔اسی سلسلے میں ماہنامہ مہر نوشکے (Mihr Noshke) نے بھی سیاسی، ادبی، تحقیقی اور تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے نوجوانوں میں بیداری کی مہم جاری رکھی۔

براہوی قوم اور زبان سے متعلق یہ مباحث متعدد مصادرمیں تفصیل سے موجودہیں، اگر خاکسار اِنھیں نظراَنداز کرکے بات شروع کرتا تو یقینا اعتراض کیا جاسکتا تھا، لہٰذا کوشش کی کہ سرسری ذکر کرکے آگے بڑھا جائے۔اب ہم نظرڈالتے ہیں اردو اور براہوی کے مشترک ذخیرہ الفاظ پر:

آ: کسی کو،خصوصاً پالتو کبوتروں کو بُلانے کی آواز: آ، آ۔ویسے کسی کو بُلانے کے لیے اردومیں آؤ ہے تو براہوی میں بہ۔
آب یعنی چمک مشترک ہے، البتہ آب یعنی پانی کو براہوی میں دِیر کہتے ہیں اورآب پاشی کو براہوی میں دِیرکاری۔
آب دار یعنی چمک والا
آب کاری
آب ودانہ کو براہوی میں رِزق روٹی کہتے ہیں۔
آب وہوار
آباد
آبادی
آبرو
ٓٓآبدی یا ابدی (یعنی دائمی)۔عربی سے مستعارلفظ ابد اوراُس سے بنا ہوا ابدی، دونوں زبانوں میں مستعمل
ٓآپ سے دُور: اردومیں کسی مخاطب کی نسبت بُری بات کہنا نامناسب سمجھا جائے تو کہاجاتا ہے، اس کے لیے براہوی میں بعینہ ترجمہ موجودہے: نے آن مُر
آپ نے تو مجھے خرید لیا۔یا۔مول لے لیا: براہوی میں کہتے ہیں، نی کنے بہاس الکٹ یعنی تم نے مجھے خرید لیا۔
آپ ہی اپنی قبر کھودنا۔یا۔اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنا: براہوی میں کہتے ہیں: تینا قبرءِ تینٹ خُتنگ
رُوح(ہندی لفظ آتما بھی ہمارے یہاں مستعمل ہے)
اردو: آج صبح صبح کس کا مُنہ دیکھا ہے، براہوی: اینوں صبح (صحب) توں دِنامون ءِ خنانُس
اچار: براہوی میں آچار۔(دیگر زبانوں کی تفصیل سے قطع نظر ہمارے یہاں بھی بعض لوگ اچار کو آچارکہتے سنائی دیتے ہیں)
آخ(کلمہ تحقیر، کھانسنے کی آواز)
آخ تھُو(کلمہ حقارت، کھنکھار کر تھُوکنے کی آواز): براہوی میں اَخ تُف۔اردومیں تُف بھی موجودہے۔
آخرت
آخری: براہوی میں آخری اور گُڈّیکو
آداب: براہوی میں ادب نا سلام
آدم
آدھا۔یا۔نِیم: نِیم
آدھاریعنی سہارا، وسیلہ، ذریعہ،مدد، مربی، بادبان، خوراک: براہوی میں آدر۔یا۔آدھر بمعنیٰ خوراک
ٓآر: لوہے کی نوک دار کِیل جو کاغذ میں سوراخ کرنے اور چمڑے سینے کے کام آتی ہے اور دفتروں میں بھی مستعمل ہے۔
آرام
آرپار: براہوی میں داپار، ایپار
آرزو، ارمان: براہوی میں ارمان
آری: براہوی میں اَرّہ (اردو کے آرے سے مماثل)
آریا۔یا۔آریہ (قوم)
آڑ: براہوی میں پناہ اور پڑدہ (یہ اردوکا پردہ ہی معلوم ہوتا ہے)
آڑی: قدیم اردو، نیز عوامی بول چال یا سلینگ میں دوست، ساتھی، مددگار،حامی یا حمایتی کے معنیٰ میں بولاجاتا ہے،جبکہ براہوی میں یہ فقط آڑ ہے اور جوتوں کی جوڑی یا سانپوں کی جوڑی میں ایک کو آڑ کہتے ہیں۔
آڑو، شفتالُو: براہوی میں شفتالُو
آڑھت: براہوی میں آڑت
آڑھتی: براہوی میں آڑتی
آزاد: براہوی میں آزاد اور آجو
آزادی: براہوی میں آزادی اور آجوئی
آزاریعنی دُکھ، تکلیف: براہوی میں ڈُکھ
آزُردگی: براہوی میں آزڑدئی
آزُردہ: براہوی میں آزڑدہ
آزمائش
آس: براہوی میں اُمِیت یعنی اُمید
آسان
آسانی
آسائش: براہوی میں آرام (اردومیں بھی)
آستاں: دربار (اردومیں بھی)
آستین: براہوی میں استونک
آسرا:براہوی میں آسرا، اومِیت، اِڑکّا
آسمان اور آکاش: براہوی میں آسمان
آسمانی
ٓآسودہ
آشا: اُمِیت یعنی اُمید
آشکار: ظاہر (اردومیں بھی)
آشنا
آشنائی
آشیرباد: براہوی میں نیک دُعائی
آغا: براہوی میں آغا اور خواجہ (جو بلوچی میں بگڑ کر واجہ اور گجراتی میں خوجہ،نیز میمنی اور دیگر علاقائی بولیوں میں کھوجہ بن گیا)
آغاز: براہوی میں شروع(اردومیں بھی)
آفت
آگاہی: براہوی میں معلوم داری
آلو: براہوی میں پَٹاٹہ (یہ لفظ انگریزی اور بعض دیگر دراوڑی زبانوں کا بھائی ہے)
آلو بُخارا
آلوچہ
ٓآلہ: براہوی میں اوزار(اردومیں بھی)
(جاری)

 



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں