[ad_1]
موسم گرما کا اختتام ہے۔ خدا خدا کر کے بنی نوع انسان اگلی گرمیوں تک اس عذاب ناک موسم سے نجات حاصل کر لیں گے ۔کیا قیامت کی گرمی تھی جس سے دنیا اور پاکستان کے عوام گزرے ۔ سوچ کر بھی خوف آتا ہے ۔صرف جنوبی پنجاب میں 567 افراد اس خوفناک گرمی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر گئے۔
یورپین یونین کی کلائمیٹ چینج سروس بتاتی ہے کہ 2024کے موسم گرما میں اتنی گرمی پڑی جو اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں پڑی ۔ اس سے پہلے گزشتہ سال کو عالمی تاریخ کا گرم ترین سال سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن اس دفعہ تو ریکارڈ ہی ٹوٹ گیا ۔ نہ صرف اگست بلکہ جون کے مہینے میں بھی ہیٹ ویو نے قیامت ڈھا دی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سعودی عرب مکہ میں 1300حاجی دوران حج شہید ہوئے۔
سردیوں کا دورانیہ چند مہینے رہ گیا ہے۔ وجہ گرین گیسیز کا اخراج ہے جس نے ماحولیات کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ،میتھین وغیرہ انتہائی زہریلی گیسوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ وجہ فوسل ایندھن کا استعمال ہے۔ یعنی کوئلہ اور پٹرول سے یہ زہریلی گیسیں نکلتی ہیں۔ اربوں کی تعداد میں وہیکلز انسانوں کے استعمال میں ہیں۔ یعنی بائیک ، کاریں ، ٹرک وغیرہ ان کو چلانے کے لیے پٹرول تیل اور ڈیزل استعمال ہوتا ہے ۔اور تو اور سمندروں میں ہزاروں بحری جہاز چل رہے ہیں۔ جس میں لاکھوں کڑوروں گیلن پٹرول،ڈیزل روزانہ استعمال ہو رہاہے۔ سویلین طیارے ہوں یا لڑاکا جنگی طیارے روزانہ ان کی لاکھوں پروازیں ہوتی ہیں۔ ان سب میں بھی لاکھوں کڑوروں گیلن پٹرول، ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔
یہ ایندھن انتہائی خطرناک گرین گیسز پیدا کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہزاروں ٹن گیس فضا میں شامل ہو رہی ہوتی ہے۔ سمندر جس سے اربوں انسان روز مرہ کی غذائیت حاصل کرتے ہیں ان سرگرمیوں سے اس کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔ایک بڑی تعداد میں آبی حیات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ جو باقی ہیں وہ فنا کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان زہریلی گیسوں کی وجہ سے اوزون میں ایک بہت بڑا شگاف پیدا ہو چکا ہے۔
قدرت کی طرف سے انسانوں کا تحفظ کرنے والی اس تہہ کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے الٹر وائئلٹ شعاعیں انسانوں کی جسمانی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے لیے انتہائی مضرہیں۔ اس وجہ سے انسان بہت بڑے پیمانے پر خطرناک بیماریوں ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہ شعاعیں انسانوں کے علاوہ زمین پر پائے جانے والے تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ شعاعیں پھل دار درختوں اور فصلوں کے لیے بھی انتہائی مضر ہیں۔ ایک تو ان کی بڑھوتری میںکمی آتی ہے دوسرے یہ فصلیں ناقص غذائیت کی حامل ہیں۔ اس ناقص غذا کو کھانے سے انسان کا امیو ن سسٹم کمزور اور جراثیم کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔ عورتوں لڑکیوں اور کم سن بچوں پر خاص طور پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو ان کی بڑھوتری رُک جاتی ہے تو دوسری طرف وہ وقت سے پہلے ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتی ہیں۔
دنیا کی تباہی کا آغاز آج سے دو سو سال پہلے اندسٹری لائزیشن سے ہوتا ہے۔ جو جتنا زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے دنیا کی تباہی میں اس کا حصہ اتنا ہی زیادہ ہے۔ ایک عام مفروضہ ہے جنگلات حرارت کو جذب کرتے ہیں لیکن ماحولیاتی سائنسدان کہتے ہیں کہ فضا میں موجود بیشتر حرارت کو سمندر جذب کرتے ہیں جب کہ جنگلات کا اس میں حصہ کم ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی سے خود سمندروں کا درجہ حرارت معمول سے بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
چلتے چلتے ایک اور بات جو بظاہر ناقابل یقین ہے لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ ہماری زمین سے چار سو کلو میٹر نیچے گہرائی میں ایک بہت بڑا سمندر ہے جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔اگلے صرف پانچ یا زیادہ سے دس برسو ں میں جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے دنیا میں ایسی انقلابی تبدیلی آجائے گئی کہ ہمارے ہوش و حواس اڑ جائیں گے۔عقل دنگ رہ جائے گی، سائنس و ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی بدولت ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ دو سو سال پہلے کا انسان اگر دوبارہ زندہ ہو جائے تو آج کی سائنس کی ترقیاں دیکھ کر اپنے ہوش کھو بیٹھے۔سائنسی ترقی مصنوعی ذہانت سیکڑوں سال پرانے مذہبی مناقشات کا خاتمہ کر دے گی کہ ان کے ثبوت فضا میں بکھر ے ہوئے ہیں۔ اس طرح سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ یہی کچھ دیگر نظریات کے ساتھ ہو گا۔
جو سمجھدار لوگ کروڑوں کی گاڑیاں خرید رہے ہیں انھیں نہیں پتا کہ بہت جلد یعنی صرف آیندہ چند سالوں میں ان کی گاڑیاں اسکریپ بن جائیں گی کیونکہ ان کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں لے لیں گی۔
خودکار گاڑی جو وجود میں آ چکی ہے اس کی وجہ سے نوے فیصد گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی۔ اسی طرح الیکٹرک ہوائی جہاز اور الیکٹرک بحری جہاز وجود میں آ جائیں گے اس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں سے زمین کا درجہ حرارت پھر سے معمول پر آ جائے گا اس کے لیے ہمیں سائنسدانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اس سے انکاری ہے تو اسے آج سے چند سال پہلے کے کورونا وائرس کو یاد کر لینا چاہیے کہ اگر یہ سائنسدان کم از کم وقت میں ویکسین ایجاد نہ کرتے تو اس نہ نظر آنے والے وائرس کے ہاتھوں بنی نوع انسان کی ایک بڑی تعداد موت کے گھاٹ اُتر جاتی ۔
[ad_2]
Source link