[ad_1]
بنگلہ دیش کے حالات سے متعلق آج کے کالم کا آغاز رنگیں سعادت یار خاں کے اِس شعر سے جو کوزہ میں دریا بند کرنے کے مترادف ہے۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کہیں چلتی نہیں
بنگلہ دیش میں آنے والی زبردست تبدیلی پر ہمیں ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی۔ البتہ حیرت اِس بات پر ضرور ہوئی کہ لاوے کے پھٹنے میں اتنی تاخیرکیوں ہوئی کیونکہ 15 برس کا عرصہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ظلم آخر کیسا بھی ہو مظلوموں کا پیمانہ صبر ایک نہ ایک دن لبریز ہو ہی جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جب ظالموں نے ظلم و ستم کی انتہا کردی۔
بنگلہ دیش کی ظالم حسینہ نے اپنے پندرہ سالہ ظالمانہ دورِ حکومت میں جبر و تشدد کے وہ پہاڑ ڈھائے جن کا تصور کر کے روح کانپ جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کی مقبول سیاسی جماعت بی این پی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عرصہ حیات تنگ سے تنگ کردیا گیا لیکن سب سے زیادہ مظالم جماعتِ اسلامی کے کارکنوں پر نہایت سفاکی اور درندگی کے ساتھ کیے گئے جنھیں سولیوں پر لٹکایا گیا۔
بنگلہ دیش کی تحریک طلباء نے ظالم حسینہ کے پیر اکھاڑ دیے اور اس کا قصرِ غرور ریت کے گھروندے کی طرح دھڑام سے نیچے آگیا اور بپھرے ہوئے طلبا نے اس کے ہوش و حواس اڑا دیے۔ حیرانی و پریشانی کے اس عالم میں اس کے چند نمک خواروں نے اس کا ساتھ دیا اور اس کے لے پالک بھارت کے حوالے کردیا جہاں وہ اپنے غیر یقینی مستقبل سے ناآشنا عارضی پناہ لیے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی کے مضمرات کا تجزیہ علیحدہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی لیگ کی حکومت جسے دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، عوامی ریلے کے بہاؤ میں تنکے کی طرح بہہ گئی اور فسطائیت کا نام و نشان مٹ گیا۔
حسینہ نے اپنے دورِ حکومت میں ترقی کا جو بھرم قائم کیا تھا، انجامِ کار اس کا بھانڈہ پھوٹ گیا کیونکہ ملک بیرونی قرضوں کی دلدل میں بُری طرح دھنسا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت درحقیقت بھارت کی لے پالک تھی اور اس کی باگ ڈور بھارت کے ہاتھوں میں تھی جو بنگلہ دیشیوں کے غم و غصہ کی سب سے بڑی وجہ تھی۔
بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کچھ عرصہ پہلے یہ سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ بنگلہ دیش میں کوئی طاقت کرپشن، اقربا پروری، انتخابی دھاندلی اور سیاسی حریفوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا قلع قمع بھی کرسکتی ہے لیکن شیخ حسینہ کے خلاف جو لاوہ پھٹا اس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے حالات سے ثابت ہوا ہے کہ نامساعد حالات عوام کو انتہائی اقدام پر مجبور کرسکتے ہیں اور پھر کوئی ان کے آگے بندھ نہیں باندھ سکتا۔ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو تنگ آمد بجنگ آمد پر مجبور کر دیں۔بنگلہ دیش میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا ایک انتہائی اہم اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ وہاں کے عوام میں پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں جذبہ خیر سگالی بیدار ہوا ہے اور ایک نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔ اِس خوشگوار تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں 11 ستمبر کو منائے جانے والے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے یومِ وفات پر بنگلہ دیش میں خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا گیا جس میں بانی پاکستان کو پروقار اور پرزور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
اِس موقعے پر قائد کے شایان شان ترانے گائے گئے اور قائد کے تئیں اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے اشعار بھی پڑھے گئے۔ اپنے پاکستانی برادران کے بارے میں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا جذبہ ایک روشن مستقبل کا آئینہ دار ہے۔
امید واثق ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام خیر سگالی کے ان جذبات کا تہہ دل سے خیر مقدم کریں گے۔ اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب:
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گُل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی
[ad_2]
Source link