[ad_1]
پیشاب کی بدبو برداشت کی تمام حدوں کو پار کر گئی تو مجھے اٹھ کر دروازے تک آنا پڑا۔ دروازے کے باہر کامنظر انتہائی دل خراش تھا۔ میرے کمرے کے باہرایک بیس، بائیس سال کی لڑکی آدھا چہرہ دوپٹے میں چھپائے دروازے سے چپکی ہوئی کھڑی تھی۔ حلیے سے کسی چھوٹے شہر یا گاؤں سے لگتی تھی۔ اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیتے ہوئے دل میں سوچا بدبو اس میں سے آرہی ہے۔ تب ہی میری نظر اس کے قدموں تک گئی تو اس بدبو کی ساری وجہ اور صورت حال سمجھ میں آگئی۔
بی بی! تمہارے ساتھ کون ہے؟ میرے پوچھنے پر اس نے باہر لان میں کھڑے ہوئے ایک آدمی اور عورت کی طرف اشارہ کیا۔ سچ بات یہ ہے کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ اسے کھڑا رہنے دوں، بیٹھنے کا کہوں یا باہر نکل جانے کا اشارہ کروں۔ لڑکی کے ساتھ آنے والی عورت نے کمرے میں داخل ہوتے ہی میرے پیروں کو چھونے کی کوشش کرتے ہوئے بولنا شروع کر دیا۔ آنسوؤں میں بھیگی اس کی گفتگو سے میں بس اتنا سمجھ سکی کہ چھے ماہ قبل اس مریضہ کے ہاں مردہ بچے کی ولادت ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کا پیشاب نہیں رک رہا۔
ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے مزید سوال جواب کیے پھر میری طرف مڑتے ہوئے کہا ‘‘ وہ اپنے ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا بھیّا عورتوں کے ’فسٹیولا‘ کے حوالے سے مہارت کی ڈگری لے کے آیا ہے۔ اس کے اسپتال بھیج دو، وہ کچھ کر سکا تو ضرور کر دے گا، آج کل اس کے کام کی بڑی شہرت ہے، باقی کسی کے بس کی بات نہیں، ڈاکٹر مسعود بھی کر سکتے تھے، لیکن یہ خالص بگڑا ہوا ’گائینی‘ کا کیس ہے۔ ’یورولوجسٹ‘ کے بس کی بات نہیں۔‘‘ میرے چہرے پر لکھی حیرت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نقوی بولتے رہے۔
اس مریضہ اور اس کے ساتھ آئے مرد و زن کو ایک اور اسپتال کا پتا بتاتے ہوئے میں نے آدھی درجن مرتبہ سمجھایا کہ وہ عورتوں کا اسپتال ہے، اُدھر ایک نیا ڈاکٹر باہر سے پڑھ کے آیا ہے، وہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے! جاتے، جاتے میں نے اس سے پوچھا کیسے جاؤگی، میرے سوال کے جواب میں اس نے ہاتھ میں پکڑے تھیلے سے پلاسٹک کا ایک ٹکڑا نکالتے ہوئے بتایا کہ اس پر بٹھا کے، پھر کہنے لگی آتے ہوئے رکشے والے نے بہت دور یہ کہے کے اُتار دیا کہ اس کا رکشا ’ناپاک‘ کر دیا۔ میں ناک پر دوپٹہ رکھے سوچ رہی تھی یہ کیسی تکلیف ہے جس کا مداوا اتنے بڑے اسپتال میں نہیں۔ زچگی سے مثانے کی خرابی کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے ’دائیوں‘ کے ہاتھوں عورتوں کی تاعمر بیماری کے جو واقعات بیان کیے وہ رونگٹے کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ خون کے آنسو بھی رلا گیا۔
وقت کا کام آگے چلتے رہنا ہے، سو وہ چلتا رہا۔ اس چلتے وقت کے دوران ایک اچھی بات یہ ہونے لگی کہ اخبارات، ٹی وی پروگرام اورعورتوں کی مختلف انجمنوں میں دوران زچگی بننے والے اس ’فسٹیولا‘ پر بات ہونے لگی، اس کے سدباب کا تذکرہ ہونے لگا، خواتین ڈاکٹروں نے بھی تربیت حاصل کرنی شروع کر دی۔
دوران زچگی ایک عورت زندگی اور موت کی جن سرحدوں کو چھو چھو کر واپس آتی ہے اس کا اندازہ ایک مرد تو کیاکچھ حالات میں عورتیں بھی نہیں کر سکتیں۔ شہروں میں رہنے والی، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ہاتھوں بچے جنم دینے والی ایک عورت بھلا کیسے جان سکتی ہے اس عورت کے درد کو، جو چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور گاؤں میں ’دائیوں‘ اور ’مڈوائفوں‘ کے ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے۔
آج بھی کراچی سمیت مختلف شہروں کے پس ماندہ علاقوں کی عورتیں زچگی کے درد کو دو، دو دن گزر جانے کے بعد انتہائی کَس مپرسی کے عالم میں اسپتالوں میں لائی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں مردہ بچوں کو جنم دیتی ہیں اور زچگی کے بعد ان کا پیشاب (بعض صورتوں میں فضلہ بھی) جاری رہتا ہے۔ یہ نہ صرف متعلقہ عورت کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، پھر ان کے ساتھ سماج کا رویہ بھی بہت برا ہوتا ہے۔ اکثر شوہر اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جب کہ خاندان کے دیگر افراد اس کو اچھوت بنا کے مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
آج بھی اکثر لوگ پو چھتے ہیں کہ ’فسٹیولا‘ بنتا کیوں ہے؟
پاکستان میں اس تکلیف کے پہلے ماہر ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے ’’زچگی کا عمل جتنا طول پکڑتا ہے، مسائل اتنے ہی گمبھیر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ انسانی جسم کے پوشیدہ و نازک اعضا قریب، قریب ہونے کے ساتھ بہت نازک بھی ہوتے ہیں اور ملک کے پس ماندہ علاقوں میں ناکافی سہولیات کے سبب ماؤں کے بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔ اس سب میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک بچے کی پیدائش کا عمل محفوظ ہاتھوں میں محفوظ جگہ پر ہونا بہت ضروری ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر شیر شاہ اب تک 40 کے قریب گائنا کولوجسٹ کو ’فسٹیولا‘ کا ماہر بنا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈھائی ہزار سے زائد مڈوائفوں کو ’فسٹیولا‘ کے مریضوں کی نگہ داشت کی تر بیت بھی دے چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آج ڈاکٹروں کو پتا ہے کہ عورتوں کو فسٹیولا ہونے کی صورت میں کیا کرنا ہے اور کہاں بھیجنا ہے۔ کوہی گوٹھ اسپتال اس تکلیف کے علاج کی سب سے بہتر جگہ ہے، جو ایسی خواتین کے لیے خدمات انجام دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زچگی سے منسلک تمام عملے کو اس حوالے سے آگاہی دی جائے تاکہ خواتین اس تکلیف دہ مرحلے اور عارضے سے محفوظ رہ سکیں۔
[ad_2]
Source link