49

کچے اور پکے کے ڈاکو

[ad_1]

ہمارے معاون خصوصی برائے وغیرہ وغیرہ کے بیانات تو روزانہ اخبارات میں آبشاروں کی طرح چلتے رہتے ہیں۔اور ان کا رُخ بھی ہمیشہ مینڈینٹ چوراور ’’پرنس‘‘ کی طرف ہوتا ہے۔لیکن تھریشر کی طرح اکثر اس میں سے بھوسا اڑتا ہے۔  کام کا ’’دانہ‘‘ کہیں ادھر ادھر ہوجاتا ہے۔لیکن اور شاید پہلی بار اس آبشار سے خبر کی صورت میں ایک’’کام کا دانہ‘‘ بھی نکلا ہے۔ اگرچہ یہ دانہ بھی ’’کنکر‘‘ سمجھ کر ’’پرنس‘‘ پر اچھالا گیا ہے لیکن پھر بھی دانہ بہرحال دانہ ہوتا ہے، چاہے وہ ایچک دانہ، بیچک دانہ ہو یا دانے پے دانہ ہو اور’’دانہ‘‘ یہ ہے کہ کچے کے ڈاکو انسانی جان لیتے ہیں اور ’’پکے‘‘ والے مستقبل سے کھیلتے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس بیان پر ایک کارٹونی کردار کی طرح ہم بھی داد دیں کہ واہ کیا ارشاد کیا ہے۔

اس پر تو بعد میں چرچا کریں گے کہ’’کچے‘‘ اور’’پکے‘‘ والے کون ہیں اور کیا۔بلکہ کیا کیا کرتے ہیں۔ پہلے کام کے دانے یا ’’کام‘‘ کی بات پر بات کرتے ہیں۔ایک زمانے میں ہم ایک حاجی صاحب کے ڈیرے میں بیٹھتے تھے۔ شام کے بعد یہاں ’’چوپال چرچا‘‘ کی محفل جم جاتی تھی اور حالات حاضرہ پر باتیں ہوتی تھیں۔ موسم کی باتیں،فصلوں کی باتیں، مہنگائی کی باتیں اور شادی غم کی باتیں۔حاجی صاحب گھر سے بہت کم نکلتے تھے لیکن ان کے ایک بھائی تھے جو مردان میں کسی صاحب کے ڈرائیور تھے اور ہفتہ عشرہ میں چھٹی پر آتے تھے۔جس دن حاجی صاحب کے بھائی ظاہرخان آئے ہوتے۔حاجی صاحب ان کے لیے گھر سے نکل آتے اور ہمارے درمیان بیٹھ جاتے اور بیٹھتے ہی ہاتھ اٹھاکر اونچی آواز میں بولتے۔بس کرو تم یہ فضول کی باتیں۔ دیکھو ظاہر خان آیا ہے، اس سے کوئی’’کام‘‘ کی بات سنتے ہیں۔ظاہر کھنکار کر شروع ہوجاتا۔کل میں اپنے صاحب کے ڈیرے میں بیٹھا، آنکھیں بند کیے دھوپ سینک رہاتھا کہ اچانک شن کرکے صاحب کی گاڑی میرے قریب آگئی۔

میں نے آٹھ کر دروازہ کھولا تو صاحب نے ایک پیر نیچے رکھا اور وہ جب تک دوسرا پیر نکالتے میں نے اپنی چادر سے اس کے پہلے والے پاوں کا بوٹ صاف کیا تھا، پھر دوسرا بوٹ بھی صاف کردیا۔صاحب نے مسکراکرکہا۔ظاہر خان تم بڑے بوٹ پالشئے ہو۔یہاں پر حاجی صاحب بھڑک کر بولتے دیکھا، میں نے کہاتھا کہ ظاہرخان سے کام کی بات سنتے ہیں۔ تم یونہی فضول بکتے رہتے ہو۔کام کی بات اسے کہتے ہیں۔تو جناب عالی۔ہمارے معاون خصوصی برائے عامہ وخاصہ و جائزہ ناجائزہ نے جو بات کہی ہے، وہ بڑے کام کی بات ہے۔کچے کے ڈاکو صرف جان لیتے ہیں جب کہ ’’پکے‘‘والے مستقبل سے کھیلتے ہیں۔اب ہمیں صرف یہ پتہ لگانا ہے کہ یہ پکے والے کون ہیں جو اتنے سارے کھیل چھوڑ کر’’مستقبل‘‘ سے کھیلتے ہیں۔جہاں تک ڈاکے اور ڈاکووں کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ بہت پہلے ایک خاتون محققہ نے حل کیا ہوا ہے۔اس سے ایک دوسری خاتون نے پوچھا تھا کہ ڈاکا کسے کہتے ہیں اور اس نے جواب میں کہا، میرا شوہر، تیرا شوہر اور اس کا شوہر۔یہ بن گیا ڈاکا

لیجیے آشیاں بن گیا

بجلیوں کا مکان بن گیا

لیکن یہ تو ان ڈاکوں کی بات ہوئی جو’’کچے‘‘ میں لوٹتے ہیں، پکے والے ڈاکووں کا معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے کہ یہ کن ’’عناصر‘‘ سے بنتا ہے۔جیسے علامہ اقبال نے ’’مسلمان‘‘ کے عناصر بتائے ہوئے ہیں یا محقق خاتون نے’’کچے‘‘ کے ڈاکووں پر مشتمل تنظیم کے عناصر کی نشان دہی کی تھی۔اور پکے کے ڈاکوؤں کے بارے میں جب ہم نے اپنا تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو پتہ چلاکہ تجاری ومکاری وعیاری وسرکاری نام کے عناصر مل کر جو ’’اشرافیہ‘‘ تشکیل دیتے ہیں، اسے پکے کے ڈاکو وں کا’’گینگ‘‘ کہا جاسکتا ہے جو نہ صرف ملک کا حشر نشر کرتے ہیں بلکہ عوام کے ’’مستقبل‘‘ کا بھی گینگ ریپ‘‘ کرتے ہیں۔اور ان چار عناصر کے مجموعے کو’’سرکار‘‘اور سرکاری کہاجاتا ہے۔

اس گینگ کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے۔کہ پچاسی فیصد ’’کمانے والوں‘‘سے پچاسی فیصد کمائی چھین کر صرف پندرہ فیصد کمائی عوام کو واپس بھیک کی صورت میں دیتے ہیں۔اور باقی اپنا مال سمجھ کرہڑ پ کرلیتے ہیں۔بات اگر یہیں تک رہتی تو پھر بھی غنیمت ہوتی اور اب تک ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔تاریخ کے ہر ہر صفحے پر اور جغرافیہ کے ہر ہر چپے پر اب تک جتنی بھی ’’سرکاریں‘‘ آتی رہی ہیں، ان سب نے یہی کیا ہے اور پچاسی فیصد کمانے والے اس کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔لیکن ہماری اس مملکت خداداد میں اب ترقی داداہ قسم کے گینگ اسے مزید ڈویلپ کرچکے ہیں۔

ماضی میں بھی ایک ظلم تھا انسان کا جینا

جو ہم کو ملا ہے یہ سماج اور ہی کچھ ہے

اس ’’اور کچھ‘‘ میں ’’سرکاری‘‘ کے مقابل جو دوسرا فریق ہے جسے پچاسی فیصد عوامیہ کالانعامیہ کہا جاتا ہے اسے مکمل طور پر بھکاری بنادیا گیا ہے، اس کی تقسیم یا حدبندی کچھ یوں ہے۔کہ افسر سے چپڑاسی تک،جرنیل سے سپاہی تک ، جج سے اہل مد تک، تاجر سے سیاست تک کے لوگ سرکاری زمرے میں ہیں اور کسان سے مزدور تک ،محروم سے مجبور تک اور منظور سے نامنظور تک کے سارے عناصر’’بھکاری‘‘کے منصب پر فائز کیے جاچکے ہیں۔سرکاریوں کو کام نہ کرنے کا انعام تنخواہ،مراعات،کرپشن اور پینشن کی صورت میں دیا جاتا ہے جب کہ بھکاریوں کو کام کرنے کی سزا بھوک، بیماری ، دربدری اور کس مپرسی کی صورت میں ملتی ہے بلکہ ایک اضافی ایوارڈ بھی ان کے لیے مختص کیا گیا ہے اور وہ ہے پیدائش سے بھی پہلے مقروضیت۔اس وجہ سے ان کا ایک نام یکسر مقروض اور اکثر منخوس بھی ہے ۔گویا

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں