65

اسٹیبلشمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ (آخری حصہ )

[ad_1]

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو عبوری قانونی حکم (P.C.O) جاری کیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر ججوں اور چاروں ہائی کورٹ کے تین ججوں نے پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکارکیا اور ان ججوں کو عدالت سے رخصت کردیا گیا۔

ان میں جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس رشید رضوی وغیرہ شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے اقدامات کو جائز قرار دیا۔ عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، جس کی پرویز مشرف حکومت کے وکیل نے درخواست بھی نہیں کی تھی۔

جنرل پرویز مشرف نے 2007میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی تو انھوں نے انکارکیا۔ جسٹس افتخار چوہدری کو نظربند کردیا گیا، جس پر وکلاء کی تحریک شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا، یوں جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوئے۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ صدارتی انتخابات لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو وکلاء نے جنرل پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کیا کیونکہ وہ فوج کے سربراہ ہونے کی بناء پر سرکاری ملازم تھے۔

قانون کے تحت سرکاری ملازم انتخابات لڑنے کا اہل نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی اور ایک نیا پی سی او نافذ کیا۔ جنرل مشرف نے جسٹس ڈوگرکو چیف جسٹس مقررکیا۔ وکلاء کی تحریک کی سیاسی جماعتوں نے حمایت کی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔ نئے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی،آصف زرداری صدر بن گئے، وہ جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت میں وکلاء نے تحریک چلائی۔

میاں نواز شریف نے اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور نواز شریف کی قیادت میں جب جلوس گوجرانوالہ پہنچا تو میاں صاحب کو فون پربتایا گیا کہ افتخار چوہدری کو بحال کیا جا رہا ہے، میاں نواز شریف واپس لاہور لوٹ گئے۔ صدر آصف زرداری نے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی ہدایت پر جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کردیا۔

اب عدلیہ کی آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ افتخار چوہدری نے اپنے فیصلوں سے عملاً متوازی حکومت قائم کردی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں برطرف کیا۔ افتخار چوہدری کے بعد کئی چیف جسٹس آئے مگر سب نے آزادانہ فیصلے توکیے مگر متوازی حکومت کے تصورکو نہیں اپنایا۔ ان میں سے ایک سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلہ دیا جس پر آج تک مکمل طور پر عمل نہ ہوسکا۔ جب میاں نواز شریف کے خلاف پاناما اسکینڈل سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آیا تو میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔

پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے جج نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے کی نگرانی کی۔ جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار اور جسٹس بندیال نے اس روش کو برقرار رکھا مگر جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو جسٹس بندیال کی قیادت میں سپریم کورٹ اور دو ہائی کورٹس نے اپنے فیصلوں سے تحریک انصاف والوں کو تحفظ فراہم کیا۔ اس دوران ہائی کورٹس کے دو جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ کا جج مقررکیا گیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ کو ترقی نہیں دی گئی۔ جسٹس سیٹھ نے آئین توڑنے کے مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف کو موت کی سزا دی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی کو برطرف کیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی سوچ تبدیل ہوئی۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر تحریک انصاف کی حمایت میں فیصلے کرنے کے الزامات عائد ہوئے۔ جسٹس بندیال نے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کو اہم مقدمات کی سماعت سے روک دیا اور جونیئر ججوں کے بنچ بنا کر اپنی مرضی کے فیصلے کیے۔

قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے، انھوں نے بعض مقدمات کی ٹی وی پر کوریج کی اجازت دے دی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف حکم امتناع کو منسوخ کیا، اسی طرح چیف جسٹس کے اختیارات کم ہوئے۔چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی بنچ بنانے کا کام کرنے لگی۔ اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کے لیے اہم فیصلے دیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایت کی کہ خفیہ عسکری ایجنسی کے اہلکار ان کا پیچھا کرتے ہیں اور ایک جج کے بیڈروم میں خفیہ کیمرینصب ہونے کی بات ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے تحریک انصاف کو پارٹی نہ ماننے اور اس کے اراکین کو آزاد اراکین قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے 8 ججوں نے فیصلہ سنایا جب کہ پانچ نے مخالفت کی، اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو حکومت کوئی آئینی ترمیم منظور نہیں کرا سکتی۔ صورت حال یہ ہے کہ چیف س فائز عیسیٰ نے بنچ بنانے کے اختیار میں کمی کرنا قبول کیا اور تین رکنی کمیٹی کو اختیار دیا گیا لیکن اب ان ہی کے دور میں واپس ہو رہے ہیں۔

حکومت کی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم اس بات کا واضح ثبوت ہے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بنچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ تین سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی بنچوں کا فیصلہ کرے گی مگر اس نئی ترمیم کے بعد اب انھوں نے خود سینئر جج منیب اخترکوکمیٹی سے نکال کر جونیئر جج جسٹس امین کو کمیٹی کا رکن مقررکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ایک آئینی ترمیم بل تیارکیا۔ اس بل کی کئی شقیں عدلیہ کو پھر انتظامیہ کا حصہ بنا دیں گی۔

سینئر استاد پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ پہلے فوج کے سپہ سالارکی تبدیلی سے حکومت کے جانے کی پیش گوئی ہوتی تھی اور اب چیف جسٹس کے ریٹائر اور نئے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے حکومت کے جانے کی پیش گوئی ہونے لگی ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ پہلے انتظامیہ عدلیہ کو سرنگوں کرتی تھی پھر عدلیہ نے انتظامیہ پر بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کی، اگر آئینی پیکیج میں شامل تمام ترامیم منظور ہوگئیں تو پھر عدلیہ انتظامیہ کے ماتحت ہوجائے گی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں