[ad_1]
آئین پاکستان ایک متفقہ دستاویز اور پاکستان کی یکجہتی کی علامت ہے مگر افسوس کہ وفاقی حکومت نے آئین و دستور میں ترامیم کے نام پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔ اس نقب زنی کے آگے تحریک انصاف تو تھی مگر مولانا فضل الرحمٰن نے آہنی دیوار بن کر نہ صرف آئین کی حفاظت کا حق ادا کیا بلکہ تحریک انصاف اور ان کے قیدی نمبر804 پر احسان کیا۔
آج پوری سیاست ایک ایسی شخصیت کے گرد گھومتی نظر آئی جس کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں صرف چند ووٹ تھے لیکن ان چند ووٹوں نے کس طرح حکومت اور اپوزیشن کی مولانا کے در پر لکیریں نکلوائیں ، جس پر ہم گزشتہ کالم میں بڑی تفصیل سے لکھ چکے۔ آج ان مجوزہ آئینی ترامیم پر بات کرتے ہیں۔
حکومت آئین کا حلیہ بگاڑنے کے لیے رات گئے جو کھلواڑ کرنا چاہتی تھی اس طرح تو ترامیم نہیں دھوکا دہی ہوتی ہے ۔ افسوس کہ 73ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاس ہوا تھا آج انھی کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری نہ چاہتے ہوئے اپنے نانا کی ساری محنت پر پانی پھیرنے والی ٹیم کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔
یہ آئینی ترامیم کیا تھیں، اپوزیشن تو دور کی بات خود حکومت کے ارکان بھی کچھ نہیں جانتے تھے کہ ان آئینی ترامیم کی نوعیت کیا ہے؟ ان ترامیم کی منظوری کے لیے حکومت نے جس عجلت میں دونوں ایوانوں کا اجلاس بلایا اس کے بارے میں حکومتی عہدیدار خود انگشت بدنداں اور اجلاس میں تاخیر کی وجوہات سے ارکان پارلیمنٹ بے خبرتھے۔ آئینی ترمیم بازیچہ اطفال نہیں اس کا ایک باقاعدہ آئینی طریقہ کار ہے، پہلے آئینی ترامیم کا مسودہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جاتا ہے پھر اس پر بحث ہوتی ہے۔ مگر اس بار اس پر اتنی رازداری تھی کہ جس مولانا کے در پر پھیرے لگ رہے تھے ان کو مسودہ اجلاس شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے بڑی مشکل سے دیا گیا۔ آخر کیوں؟
آئینی ترامیم کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین سے باقاعدہ مشاورت کی جاتی ہے وہ کیوں نہیں کی گئی‘ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری کی ساری دال ہی کالی تھی اس لیے نہیں دکھائی جارہی تھی۔ منظر عام پر آنے کے بعد لگتا یہی ہے کہ آئینی ترامیم کا بنیادی مقصد اختیارات چھین کر عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کرنا تھا جس کے لیے پوری حکومتی مشینری متحرک تھی اور سب کی نظریں مولانا پر مرکوز تھیں مگر صدر مملکت آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی ان کو ’’آئینی پیکیج‘‘ کی حمایت کرنے کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے اور حکومت کو ان ترامیم کے لیے بلائے گئے اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا۔ مبینہ طور پر بعد ازاں وہ ترامیم سامنے آہی گئیں جنھیں حکومت منظور کرانے کی کوشش کررہی تھی۔ آپ بھی اس کا خلاصہ پڑھیں، اپوزیشن جماعتوں کے بیانات اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی پیکیج میں 50 سے زائد تجاویز شامل تھیں جن میں سے زیادہ تر عدلیہ سے متعلق ہیں۔
اہم تجاویز میں سے ایک نئی وفاقی آئینی عدالت تشکیل دینا تھا جس کا کام صرف آئینی شقوں کی تشریحات سے متعلق درخواستوں کو نمٹانا تھا۔ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 68 سال تک بڑھانا شامل تھا جب کہ سپریم کورٹ کے جج 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ مبینہ طور پر یہ بھی تجویز کیا گیا تھا وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے۔
سپریم کورٹ میں تقرریاں فی الحال ایک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ دستاویز کے مطابق ایک تجویز یہ بھی تھی کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8ارکان پر مشتمل ہوگی،کمیٹی ارکان کا انتخاب اسپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔ ایک اور اہم تجویز مئی 2022میں سپریم کورٹ کے ایک متنازعہ ترین فیصلے پر نظر ثانی کے متعلق تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے انفرادی ووٹ کو اپنی پارٹی لائن کے خلاف دے گا تو ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور ان کی نشست بھی ہاتھ سے جائے گی جو آئین میں موجود شق سے متصادم اور غیر منطقی فیصلہ ہے کیونکہ جو جرم سر زد نہیں اس پر سزا کیسے ہوسکتی ہے؟
آئین و دستور کے مطابق فلور کراسنگ جرم ہے مگر فلور کراسنگ تو تب ہوگی کہ کوئی رکن پارلیمنٹ اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیگا اور وہ ووٹ شمار ہوگا تو اسے جرم سرزد ہونا کہیں گے اور پھر وہ ڈی سیٹ ہو تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر ووٹ بھی شمار نہ ہو اور بندہ اپنی رکنیت سے جائے یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ آئین و دستور کے مطابق آئینی ترامیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔
حکومت کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مطلوبہ تعداد نہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے حکومت کے تمام زعماء بشمول صدر مملکت آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمٰن کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑتے رہے، مبینہ طور پر مولانا کو برادر اسلامی ممالک سے فون بھی کرائے گئے، انھیں حکومت میں شمولیت اور ساتھ دینے کی صورت میں بیش بہا پیش کشیں ہوئی لیکن مولانا نہیں مانے اور اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست کو فوقیت دے کر اس آئین کو بچا لیا جسکے بنانے والوں میں ان کے والد محترم مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ بھی پیش پیش تھے۔ اگرچہ مولانا نے حکومتی ترامیم کو یکسر مسترد کیا مگر اس کے بعد بھی حکومتی وفود کے رات گئے تک رابطے جاری رہے۔ جوڑ توڑ کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو آئینی ترامیم غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کردی گئیں۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں کے بلائے گئے اجلاس ملتوی کرنا پڑے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’’آئینی ترامیم آنے میں ہفتہ دس دن بھی لگ سکتے ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو جائیں گے، پارلیمنٹ سے ترمیم منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی نہیں، ہمارے نمبرز پورے ہیں‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مسئلہ نمبر گیم کا نہیں ہے بلکہ مسودے میں کچھ نکات پر اتفاق کا ہے جو کہ ہر فریق کا حق ہے جب کہ مسودہ کبھی بھی سامنے نہیں آتا بلکہ پہلے یہ ایوان میں پیش ہوتا ہے‘‘۔
بہر حال پتہ نہیں حکومت اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ہے یا عوام کو؟ ساری قوم جانتی ہے کہ حکمرانوں سے اْول جلول فیصلے کہاں سے کروائے جارہے ہیں۔ ان اْول جلول فیصلوں کا وزن حکومت کی برداشت اور صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے پھر بھی خدا کی قدرت ہے کہ وہ چل رہی ہے بلکہ اُڑ رہی ہے، یہ کسی کو پتہ نہیں کہ اس مصنوعی اُڑان میں ’’ایئر پاکٹ‘‘ کب، کہاں آجائے اور اڑتے پنچھی کب زمین پر اوندھے منہ گر پڑیں، مگر ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ یہ ہونی ہوکر رہے گی۔
ایسا آئینی مسودہ جسے پڑھ کے وفاقی کابینہ نے بھی منظوری نہیں دی اور نہ ہی اس مسودے کو اتحادی جماعتوں کے ملاحظے کے لیے من و عن پیش کیا گیا، پھر بھی اسے دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو 24 گھنٹے تک پنجوں کے بل کھڑا رکھنا، یہ حوصلہ، یہ اندھا اعتماد ایسے ہی پرندے کرسکتے ہیں جنھیں مصنوعی فضاؤں میں اڑنے کا موقع دیا گیا ہو۔
مولانا نے تو اس غیرآئینی ترمیم کی راہ میں دیوار بن کر ملک کی تمام محب وطن اور آئین دوست سیاسی جماعتوں کی جانب سے فرض کفایہ ادا کردیا ہے لیکن قوم اس کامیابی پر شادیانے بجانے کے بجائے خبردار رہے کیونکہ آگ دبی ہے ابھی بجھی نہیں۔ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن لے کر حالات کی نزاکت کو سمجھ کر مولانا کے مشورے پر عمل کیا اور ان کے ذریعے متفقہ آئینی ترامیم کی طرف گئے تو یہ بحران ٹل سکتا ہے ورنہ یہ آگ کسی دن بھڑک اٹھے گی۔
[ad_2]
Source link