57

دو ریاستی حل کی راہ میں حائل رکاوٹیں

[ad_1]

(فوٹو: بی بی سی)

(فوٹو: بی بی سی)

امریکی صدر جوبائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا پھیلاؤ کسی کے حق میں نہیں، دو ریاستوں کا قیام ہی مسئلہ فلسطین کا حل ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ لبنان جنگ کے دہانے پر ہے، ایک اور غزہ بننے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے خطاب کے دوران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے پرانے مؤقف کو ہی دہرایا ہے جو امریکا کا مؤقف بھی رہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کی واحد ضمانت اور واحد راستہ دو ریاستی حل ہے،کیونکہ جو بائیڈن انتظامیہ ایک طویل عرصے سے کوشش میں ہے کہ وہ کسی طرح اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان ایک معاہدے کی صورت بنا سکے۔

دوسری جانب اسرائیل بار بار کہتا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست دینے کو تیار نہیں ہے۔ خصوصاً سات اکتوبر2023کے بعد اس نے یہ موقف کئی بار دہرایا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا ہے کہ فلسطینی ریاست قبول نہیں ہے۔ ان کا یہ انکار بلاشبہ دہائیوں سے جاری تصادم کو کم نہیں کرتا ہے بلکہ کشیدگی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس کے بر عکس عرب ملکوں نے کافی عرصے سے یہ کہہ رکھا ہے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کا قیام قبول کر لے، یہ کھڑکی آج بھی کھلی ہے۔

سات اکتوبر 2023 سے پہلے فلسطین کے تین زون بنانے کی تجویز تھی جب کہ حتمی طور پر سعودی عرب یہی کہتا ہے کہ 1967 کی سرحد کی بنیاد پر فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو، امن مذاکرات شروع کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی بعض جماعتیں بھی اس تنازع کے دو ریاستی حل کی مخالف ہیں۔ دوسری جانب مغربی کنارے میں کنٹرول رکھنے والے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری پر بھی اس حوالے سے زور دیتے رہے ہیں۔ حماس اسرائیل کے قیام کو ہی غیر قانونی سمجھتی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، لیکن اس تنازع کی پیچیدگی اور تشدد کے واقعات کے باعث دو ریاستی حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ درحقیقت غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ فلسطین میں کون سے فارمولے کے تحت مستقل اور دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 1993میں اوسلو معاہدے کے تحت دریائے اُردن کے مغربی کنارے، غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر مشتمل اسرائیل کے متوازی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا جو تجربہ کیا گیا تھا (جسے دو ریاستوں کا فارمولا بھی کہا جاتا ہے) وہ عملاً ناکام ہوچکا ہے کیونکہ اسرائیل نے شمالی غزہ میں تباہ کن بمباری اور گولہ باری کے ذریعے غزہ کی 80 فیصد آبادی کو اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں یا جنوبی غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے۔

فلسطین میں عرب باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد 30 لاکھ دریائے اُردن کے مغربی کنارے، جسے عام طور پر ’’مغربی کنارے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، میں آباد ہے۔ وہاں بھی فلسطینی اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا مغربی کنارے سے رابطہ ختم کر کے اسے فلسطینیوں کے لیے ایک نو گو ایریا قرار دے دیا ہے۔ فلسطینی ریاست جسے ’’ فلسطینی اتھارٹی‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کے صدر محمود عباس ہیں، کی غزہ میں عملداری ختم ہو چکی ہے اور مغربی کنارے میں بھی وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے حملوں سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کے خلاف اعلانِ جنگ پر بے دریغ عمل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا سیاسی نقشہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ حالانکہ عالمی برادری جس میں عرب اور مسلمان ملکوں سمیت امریکا بھی شامل ہے ’’ دو ریاستی فارمولے‘‘ پر اصرارکر رہے ہیں، لیکن اس فارمولے پر اسرائیل کے دیرینہ موقف اور سات اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حالات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ اس فارمولے کی بنیاد پر فلسطین میں مستقل امن کے قیام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

دو ریاستی فارمولا، جو دراصل نومبر 1947 میں فلسطین کو دو، عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر مبنی تھا، انتہا پسند یہودیوں کو قبول نہ تھا، اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور 1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ 1948 میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرلیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔

یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسرکر رہے ہیں، لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔1967کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے علاوہ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے عرب اسرائیل تنازع میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہوگیا تھا، یعنی مغربی کنارے، غزہ اور شام کی سطح مرتفع گولان پر قبضے کا۔

جنوری 1967میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے چار عرب ممالک یعنی مصر، اُردن، شام اور لبنان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد، خود مختار اور با اختیار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، جس کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی سرحدوں کی ضمانت بھی دیں گے، لیکن اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔

اس طرح اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا تھا۔ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امن کے فقدان اور آئے دن کے تصادم کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکا کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ 1967کے بعد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر امن پیشکش کو امریکا کی شہ پر اسرائیل نے مسترد کیا، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1991میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ اسرائیل کو بھی ’’ دو ریاستی‘‘ فارمولے پر راضی ہونا پڑا تھا۔ اس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں کے بجائے لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آنا تھا، تاہم 2009 میں جب نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی ایک مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اوسلو معاہدے (1993) کے تحت ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔

ان میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست میں تبدیل کرنا اور دوسرے بیت المقدس کے ان علاقوں میں، جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے، یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کرنا ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں ’’ دو ریاستی فارمولا‘‘ اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ انھیں ان کی بستیوں سے نکال کر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنا ناممکن ہے۔ اس کے بجائے فلسطینیوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، جہاں فلسطینیوں کو برابر کے شہری، سیاسی، قانونی اور معاشی حقوق میسر ہوں۔

اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس وقت بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن کے کنارے تک تمام علاقے میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی برابر تعداد آباد ہے اور ان کے درمیان مستقل امن اور مفاہمت صرف ایک ریاست کی صورت میں ہی ممکن ہے، مگر اسرائیل اسے بھی مسترد کرچکا ہے۔ اس کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد حل تمام فلسطینیوں کو اُردن میں آباد کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز دراصل فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے ان کے وطن سے محروم کرنے کے مترادف ہے اور عرب اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں