40

لاپتہ افراد کیس میں اِن کیمرا بریفنگ کیلئے آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی افسران کی کمیٹی طلب

لاپتا افراد کیس میں اِن کیمرا بریفنگ کے لیے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی افسران کی کمیٹی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طلب کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے ‏14 لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی  جسٹس طارق محمور جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر بنچ کا حصہ تھے۔ دوران سماعت وزارت دفاع سمیت مختلف متعلقہ اداروں نے تفصیلی رپورٹس پیش کی۔

عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو ہدایت دی کہ آپ کے سینئر آفیشلز کی جو کمیٹی بنی تھی وہ آئے اور عدالت کو سمجھائے۔  عدالت نے بند لفافے میں سر بمہر رپورٹ وزارت دفاع کے نمائندے کو واپس کردی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک ایک کیس میں کمیشن نے بیس بیس پروڈکشن آرڈرز حاصل کے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں لاپتہ افراد کمیشن دھول جھونک رہا ہے، لکھا ہوا ہے جبری گمشدگی ہوئی پھر بھی آپ کے لوگ پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کر رہے، مجھے سخت تکلیف ہوئی جو کمیشن کی رپورٹس میں نے پڑھیں ہیں، یہ نظرثانی کا اختیار کمیشن کے پاس کہاں ہے میں نے پڑھا کہیں نظر نہیں آیا، میرے آرڈر پر عمل ہوگا اگر نہیں ہو گا تو پھر مجھے یہاں بیٹھنے کی ضرورت نہیں، آج ہم آرڈر کر رہے ہیں جن افراد کو کمیشن جبری گمشدہ ڈکلئیر کرچکا ان کی فیملی کے لیے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اگر اے ٹی سی پر یقین نہیں تو پھر بنالیں ملٹری کورٹس،  جتنا علاج کیا مرض بڑھتا گیا اس کا مطلب ہے علاج ٹھیک نہیں ہے، لاپتا افراد ایک حقیقت بن چکے ہیں۔

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ جے آئی ٹی میں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ اغوا میں ملوث ہیں، جو اغوا کرتے ہیں آج تک کسی کی شناخت نہیں ہوئی ان کا احتساب ہونا تو بعد کی بات ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدہ افراد بازیابی کمیشن میں 80 فیصد جبری گمشدہ افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اُن 80 فیصد لوگوں پر کیا گزر رہی ہوگی کبھی سوچا ہے؟ وہ عدلیہ سمیت ہر ادارے سے شدید نفرت کرتے ہوں گے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کتنی تعداد ہوگی؟ کتنے شہریوں کو ایسے رکھ سکتے ہوں گے؟

عدالت نے حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تین رکنی کمیٹی کو اِن کیمرا بریفنگ کیلئے طلب کرلیا، کمیٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے بریگیڈیئرز اور آئی بی کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پالیسی بنائی جائے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ میکنزم بنا کر اُسے وفاقی کابینہ کے سامنے بھی رکھا جائے، میرا ماننا ہے کہ اس ایشو کو حل کرنے کا میکنزم وزارتِ دفاع بنا سکتی ہے، وزارتِ دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پالیسی بنا کر وفاقی حکومت کو دیں، مزید تفصیلات یہ عدالت ابھی تجویز نہیں کر سکتی۔

جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ہم نے ابھی کمیٹی کو سنا نہیں، انہیں سُن کر شاید ہم مزید چیزیں آرڈر میں شامل کریں۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایمان مزاری سے مکالمہ کیا کہ کوئی اور تفصیل تو دیں آپ کی لسٹ میں تو صرف نام اور جگہ ہے۔

تین طلبا لاپتا، کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار

دوران سماعت عدالت نے تین لاپتا طلباء کی گمشدگی سے متعلق رجسٹرار لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی، عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق وفاقی کابینہ کو میکنزم بنانے کی ہدایت کی۔

لاہور سے ڈاکٹر علی عبداللہ لاپتا، تفتیشی افسر سے ریکارڈ طلب

لاہور سے لاپتا ڈاکٹر علی عبداللہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار نے کہا کہ آئی ایس آئی بڑا طاقتور ادارہ ہے مگر آپ میری بات سن لیں۔  پنجاب پولیس نے کہا کہ جناح اسپتال واقعے میں علی عبداللہ 2010ء سے اشتہاری ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ میرے پاس متعلقہ دستاویزات نہیں ہیں مجھے مقدمے کی تیاری کے لیے مجھے وقت درکار ہے۔

عدالت کا آئندہ سماعت پر تفتیشی کو تھانہ گارڈن ٹاؤن کے مقدمہ کی تفصیلات عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے اس کیس میں اب تک کی تفتیش اور ضمنی سے تمام متعلقہ ریکارڈ طلب کرلیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کا موقف آچ کا کہ وہ اشتہاری ہے تو اب آپ ریکور کریں گے؟

درخواست گزار نے کہا کہ ملک کے وزیر اعظم بھی آئی ایس آئی سے ڈرتے ہیں، بینچ آج وزیراعظم کو بلائے یا ڈی جی آئی ایس آئی کو بلائے تو بچے کل گھر پہنچ جائیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈاکٹر علی عبداللہ کی گمشدگی سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں گیا ہوا ہے،

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ اس وقت کیس کا وہاں کیا اسٹیٹس ہے؟ عدالت نے لاپتا کمیشن رجسٹرار سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ کوارٹرلی شئیر کرتے ہیں؟ رجسٹرار لاپتا افراد بازیابی کمیشن نے کہا کہ ہم ماہانہ سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔

اس دوران درخواست گزار نے ڈی جی آئی ایس کو بلانے کی ایک بار پھر استدعا کی اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا چودہ سال پہلے کے ڈی آئی ایس آئی کو بلائیں یا ابھی والے کو؟ درخواست گزار نے کہا کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کو بلائیں یہ کمیٹیاں بنتی رہیں گی۔

عدالت نے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن نے علی عبداللہ سے متعلق کئی پروڈکشن آرڈرز جاری کیے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے ہیں اس میں کوئی پن پوائنٹ نہیں کیا گیا۔

عدالت نے پنجاب پولیس کو کیس سے متعلق تمام ریکارڈ آئندہ سماعت سے پہلے عدالت جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے لاپتا  فرد ڈاکٹر علی عبداللہ کیس میں بھی لاپتا افراد سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کو ان کیمرا بریفنگ کی ہدایت کردی۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں